اسلام آناد (ای پی آئی )سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئنی بینچ کی ملٹری کورٹس میں سویلین ٹرائلز کیخلاف نظر ثانی اپیلوں پر سماعت ، سلمان اکرم راجہ کے دلائل جاری ،سماعت 18 فروری تک ملتوی ۔
تفصیل کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ نے کیس کی سماعت کی، دوران سماعت ملزم ارزم جنید کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بنچ کی جانب سے بھارت میں کورٹ مارشل کے خلاف اپیل کا حق دینے کا سوال ہوا تھا، برطانیہ میں کورٹ مارشل فوجی افسر نہیں بلکہ ہائیکورٹ طرز پر تعینات ججز کرتے ہیں، کمانڈنگ افسر صرف سنجیدہ نوعیت کا کیس ہونے پر مقدمہ آزاد فورم کو ریفر کرسکتا ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ہم نے اپنا قانون دیکھنا ہے برطانیہ کا نہیں، یہ غیرضروری بحث ہے آپ وقت ضائع کر رہے ہیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ زیر سماعت اپیلوں میں کالعدم شدہ دفعات بحالی کی استدعا کی گئی ہے، قانون کی شقوں کا جائزہ لینا ہے توعالمی قوانین کو بھی دیکھنا ہوگا، سلمان صاحب اگر دفعات کالعدم نہ ہوتیں تب دلائل غیرمتعلقہ ہوسکتے تھے اب نہیں ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیس میں اصل سوال ہے کہ موجودہ نظام کے تحت سویلین کا کورٹ مارشل ہوسکتا ہے یا نہیں۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سویلنز کا کورٹ مارشل کسی صورت میں بھی ممکن نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ برطانوی قانون تو وہاں کی فوج کے ڈسپلن سے متعلق ہے، موجودہ کیس میں تو جرم عام شہریوں نے کیا، وہ اس پر کیسے اپلائی ہوسکتا ہے؟ جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ برطانوی قانون کی مثال ٹرائل کے آزاد اور شفاف ہونے کے تناظر میں دی تھی،
سلمان اکرم راجہ نو مئی کا جرم سرزد ہونے سے متعلق جج کے سوال کا جواب گول کر گئےدوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا کہ کیا آپ تسلیم کرتے ہیں نو مئی کا جرم سرزد ہوا ہے؟ جس پر سلمان اکرم راجہ جواب گول کرتے ہوئے بولے کہ جی جی میں اس پر عدالت کو بتاتا ہوں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ نو مئی کو حد کردی گئی، اب آپ کو بنیادی حقوق یاد آگئے ہیں۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرٹیکل 184/3 کو محدود نہیں کیا جا سکتا، ملزمان کا آزاد عدالت اور فئیر ٹرائل کا حق ہے۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ فئیر ٹرائل کیلئے آپ کو آرٹیکل آٹھ تین سے نکلنا ہوگا۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ مجھ سے کل بھی ایک سوال پوچھا گیا تھا، میں نے گذشتہ روز کے سوال کا جواب نہیں دیا۔ آرمی سے متعلق قانون سازی 2015 اور پھر 2017 میں ہوئی تھی، اے پی ایس والے آج بھی انصاف کیلئے دربدر بھٹک رہے ہیں۔جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ میرا اشارہ آرمی چیف کی توسیع کے قانون کی طرف تھا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آرمی پبلک اسکول کے کچھ مجرمان کو پھانسی ہو گئی تھی۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ فوج میں ایک انجینئرنگ کور ہوتی ہے، فوج میں ایک میڈیکل کور بھی ہوتی ہے، دونوں کورمیں ماہرانجینئر اور ڈاکٹرز ہوتے ہیں، کیا فوج میں اب جوڈیشل کور بھی بنا دی جائے؟جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مسلح افواج کی جیگ برانچ ہے۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ تو قانون سازوں کا کام ہے، ایک جرم سرزد ہوا تو سزا ایک ہوگی، یہ کیسے ہوگا ایک ملٹری ٹرائل ہو دوسرا ملزم اس سے الگ کردیا جائے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ الزام لگا کرفئیرٹرائل سے محروم کر دینا یہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے، مجھے ایک بہت بڑا کرمنل بنا دیا گیا ہے، مجھ پر رینجرز اہلکاروں کے قتل کی بانی پی ٹی آئی کے ساتھ سازش کا الزام ہے، اگر قانون کی شقیں بحال ہوتیں ہیں تو مجھے ایک کرنل کے سامنے پیش ہونا پڑے گا۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کے خلاف ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی کے سیکشن لگے ہوں گے۔
جسٹس امین الدین نے سلمان اکرم راجہ سے استفسار کیا کہ آپ کی ملٹری کسٹڈی مانگی گئی ہے؟ جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میرے کیس کو چھوڑیں، نظام یہ ہے الزام لگا کر ملٹری ٹرائل کی طرف لے جاؤ۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ مفروضوں پر نہ جائیں۔
جسٹس محمد علی مظہر بولے کہ ایسا نہیں ہے کسی کو پکڑ کر خصوصی عدالت میں ٹرائل کریں گے، عام ایف آئی آر میں بھی محض الزام پر ملزم کو پکڑا جاتا ہے، آفیشیل سیکرٹ ایکٹ کا پرانا قانون صرف جاسوسی کے خلاف تھا، آفیشیل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم سے نئے جرائم شامل کیے گئے ہیں۔بعدازاں، انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت 18 فروری تک ملتوی کردی گئی، سلمان اکرم راجہ منگل کو بھی دلائل جاری رکھیں گے۔