اسلام آباد (محمداکرم عابد)پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے چینی کی بڑھتی قیمت کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ اداروں سے رپورٹ طلب کرلی ملزمالکان کی تفصیلات بھی مانگ لی گئیں ۔

پی اے سی کا اجلاس چیئرمین جنید اکبر خان کی صدارت میں منعقدہوا۔اجلاس میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی وزارت موصلات کے سالانہ حسابات کی جانچ پڑتال کی گئی مفادعامہ کے معاملات کا ازخودنوٹس لیا گیا۔جبکہ اس نامہ نگار سے بات چیت کرتے ہوئے چیئرمین جنیداکبرخان نے کہا کہ چینی کی بڑھتی قیمتوں کا نوٹس لیا گیا ہے۔چینی کی پیدوار،ذخائر،چینی کے کارخانوں کے مالکان، برآمدی چینی کی مقدار اس کی پالیسی کے بارے میں تفصیلات طلب کی گئیں ہیں ۔

یاد رہے کہ پاکستان میں چینی کی صنعت طویل عرصے سے بدانتظامی شفاف پالیسی نہ سے متعلق معاملات کا شکارہے۔خلاف ضابطہ مداخلت، تحفظ پسندپالیسیوں اور سیاسی اثر و رسوخ کی سہولت کاری کے علاوہ چینی کی صنعت، چند سیاسی طور پر منسلک خاندانوں کے زیرِ تسلط ہے، سبسڈی، گنے کی امدادی قیمت مسابقت، مصنوعی مراعات کاپیچیدہ نظام بھی کارفرما ہے ۔

اجلاس کے دوران حکام نے بتایا کہ این ڈی ایم اے فنڈز کی کم انٹرسٹ ریٹس پر انویسٹمنٹ سے 80 کروڑ روپے کے نقصان سے متعلق آڈٹ اعتراض بنا ہے۔9جولائی 2022 میں اسٹیٹ بینک کا پالیسی ریٹ 15 فیصد تھا، نیشنل بینک کی جانب سے 11.19 فیصد ادا گیا، 14 جنوری 2023 میں پالیسی ریٹ 16 فیصد تھا، 14.80 فیصد ادا کیا گیا۔ارکان نے کہا کہ2022 میں انٹرسٹ ریٹ 15 فیصد ہے اور 11 فیصد مل رہا ہے۔

اپوزیشن لیڈر عمرایوب نے کہا کہ معمولی نقصان نہیں ہوا، 80 کروڑ کا ہوا ہے، کون ذمہ دار ہے، یہ مجرمانہ غفلت کے ذمرے میں جاتا ہے، اسے نیب کو ریفر کریں، وزارت خزانہ کہتی ہے مٹی پاؤ تو پھر آڈیٹر جنرل کا ادارہ کر کیا رہا ہے، پھر تو یہ دکان ختم کریں۔کمیٹی نے معاملہ واپس ڈی اے سی کے سپرد کردیا۔

این ڈی ایم اے کی جانب سے فوڈ پیکس کی سپلائی پر وینڈر کو اوور پیمنٹ سے متعلق آڈٹ اعتراض کا جائزہ لیا گیا حکام نے آگاہی دی کہسیلاب متاثرین کے ریلیف آپریشنز کے لئے اشیاءکی سپلائی پر جی ایس ٹی کا استثنیٰ تھا،این ڈی ایم اے نے بارہ کروڑ 48 لاکھ روپے جی ایس ٹی کی مد میں دے دیئے، فنانس والے یہ بتادیں ری فنڈ بنتا ہے یا نہیں۔

حکام نے کہا کہ یہ ایف بی آر کا معاملہ ہے،کمیٹی نے یہ پیرا بھی واپس ڈی اے سی کے سپرد کردیا۔این ڈی ایم اے کی جانب سے این ایل سی کو خلاف ضابطہ طور پر کنٹریکٹ دینے سے متعلق آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا کہ نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر کی بلڈنگ کی تعمیر کا ٹھیکہ این ایل سی کو بغیر کسی تخمینے کے دے دیا گیا۔ارکان نے کہاکہ یہ کون سی بلڈنگ تھی جو اوپن بڈنگ سے نہیں کرا سکتے تھے، کمیٹی نے معاملے پر ایک مہینے میں رپورٹ طلب کرلی۔

اے ڈی بی نے سیلاب متاثرین کے لئے 3 ملین ڈالر کی گرانٹ دی گئی، آڈٹ حکام نے کہا کہ خریدے گئے ٹینٹس اور بلینکٹ ترکی اور شام کے زلزلہ متاثرین کے لئے بھجوا دیئے گئے،کمیٹی نے معاملے پر ایک مہینے میں رپورٹ طلب کرلی۔آڈٹ کے مطابق فلڈ ریلیف 2022 کے لئے ڈونر اسسٹنس کا تھرڈ پارٹی آڈٹ نہ کروایا گیاکمیٹی نے اس معاملے پر بھی ایک مہینے میں رپورٹ طلب کر لی۔

مواصلات ڈویڑن سے متعلق آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیاگیا۔کمیٹی نے سیکرٹری مواصلات کے بجائے جوائنٹ سیکرٹری کی جانب سے ڈی اے سی کرنے پر برہمی کا اظہارکرتے ہوئے انتباہ کیاکہ جوائنٹ سیکرٹری کس طرح ڈی اے سی کر سکتا ہے؟ اور سیکرٹری صاحب کس طرح اجازت دے سکتے ہیں؟ چیئرمین کمیٹی نے دو گرانٹس کے معاملے پر دوبارہ ڈی اے سی کرنے کی ہدایت کردی۔

اجلاس کے دوران این ایچ اے کے مختلف منصوبوں کے نقائص ٹھیک نہ کرنے اور ریکوری نہ کرنے سے متعلق آڈٹ اعتراض کا جائزہ بھی لیاگیا، جنید اکبر خان نے کہا کہ جب آڈٹ نے بتایا تو اس کے بعد تو حکام ایکشن لیتے، 3.1 ٹریلین کا آپ کے اوپر قرضہ چڑھا ہے اس لئے کہ ہم ذمہ داری پوری نہیں کرتے، جب آڈٹ حکام مجھے بریفنگ دے رہے تھے تو بتایا کہ این ایچ اے اسٹیل مل بن گئی ہے، کنٹریکٹر کے خلاف کیا ایکشن لیا، کمیٹی کو بتایا جائے،

ارکان نے کہا کہ میانوالی ملتان روڈ قاتل روڈ رہا ہے، ابھی تک وہ مکمل نہیں ہو پارہا، فنڈز، پیسہ غلط استعمال ہو رہا ہے۔چیئرمین پی اے سی نے کہاکہ پاکستان پوسٹ میں391 بندوں کے خلاف انکوائری ہوئی، ثابت ہوا وہ کرپشن میں ملوث تھے، کچھ ڈیپوٹیشن پر جارہے ہیں،

چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ ایک مہینے میں ہمیں بتائیں کہ کس کے خلاف کیا ایکشن ہوا، پی اے سی نے شاہدہ اختر علی کی سربراہی میں پی اے سی کی ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی۔کمیٹی میں ریاض فتیانہ ، رانا قاسم نون اور سینیٹر بلال مندوخیل شامل ہوں گے۔کمیٹی 2010 سے 2014 تک کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لے گی۔

بعدازاں اس ادارے کےنامہ نگار سے بات چیت کرتے ہوئے چیئرمین جنیداکبرخان نے کہا کہ چینی کی بڑھتی قیمتوں کا نوٹس لیا گیا ہے۔چینی کی پیدوار،ذخائر،چینی کے کارخانوں کے مالکان، برآمدی چینی کی مقدار اس کی پالیسی کے بارے میں تفصیلات طلب کی گئیں ہیں ۔یاد رہے کہ پاکستان میں چینی کی صنعت طویل عرصے سے بدانتظامی شفاف پالیسی نہ سے متعلق معاملات کا شکارہے۔خلاف ضابطہ مداخلت، تحفظ پسندپالیسیوں اور سیاسی اثر و رسوخ کی سہولت کاری کے علاوہ چینی کی صنعت، چند سیاسی طور پر منسلک خاندانوں کے زیرِ تسلط ہے، سبسڈی، گنے کی امدادی قیمت مسابقت، مصنوعی مراعات کاپیچیدہ نظام بھی کارفرما ہے۔