خلق خدا کی آواز کو نقارہ خدا سمجھا جاتا ہے۔
تاریخ گواہ ہے جب بھی عوام اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے باہر نکلی اس نے بڑے بڑے سفاک طاقتور حکمرانوں کو لوہے کے چنے چبانے پر مجبور کیا اور ان کو چھپنے کیلئے ارض خدا پر جگہ تک نہ مل سکی۔ عوام کی طاقت کیا ہوتی ہے ؟ اس کا اندازہ عوامی لوگوں کو ہی ہوتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کبھی کبھی عوام کی صفوں میں لیڈر کے روپ میں میر جعفر و میر صادق گھس جاتے ہیں جو صرف اپنے ذاتی مقاصد حاصل کرنے کیلئے جمہوری طاقت کا استعمال کرتے ہیں۔ایسے لوگ عوامی مفادات سے زیادہ اپنے مفادات کو اہمیت دیتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال ملک میں موجود تمام سیاسی پارٹیوں کا ہے جن کے ماضی کو دیکھیں تو سب کے سب اسٹبلشمنٹ کے آگے سر بسجود نظر آتے ہیں یہی تمام سیاسی پارٹیاں طاقت کا اصل سرچشمہ جمہور کو کہتی ہیں ہے۔ جب ان پارٹیوں کو اپنے ذاتی مفاد حاصل کرنے میں دشواری پیش آتی ہے تو عوامی احساسات کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر راستوں پے عوام کو لیکر آتی ہیں۔ جلسے جلوس کرنے ہوں، ڈنڈے کھانے ہوں، آنسو گیس، پولیس کا تشدد برداشت کرنا ہو حتیٰ کہ گولیوں کیلئے بھی عوام کا سینہ آگے لایا جاتا ہے۔ یہی لوگ طاقت حاصل کرنے کیلئے عوامی طاقت کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ جب اقتدار کی کرسی حاصل کرنے کی بات آتی ہے تو یہی جمہوریت کے دعویدار نام نہاد رہنما غیر جمہوری قوتوں کے آگے اپنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں اور ان کو اپنا باپ تک کہنے میں شرم محسوس نہیں کرتے۔ اقتدار ملنے کے بعد ان غیر جمہوری قوتوں کے ڈاکٹرائن کو جمہوریت دوست کہتے ہوئے نہیں تھکتے۔ دیکھا جائے تو سہاروں کی تلاش ان کو ہوتی ہے جو معذور، کمزور و لاچار ہوں۔ میری نظر میں عوام معذور کمزور یا لاچار نہیں اگر کمزور ہیں تو ہماری سیاسی پارٹیاں کمزور ہیں جو اپنے مفاد کیلئے فخر سے سر کٹانے سے بہتر لالچ میں آگر سر جھکانا پسند کرتے ہیں۔
ملک کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو قائد اعظم کی خراب ہونے والی ایمبولنس سے لیکر عمران خان کی کامیابی تک جمہوریت کی بے توقیری صاف صاف نظر آتی ہے۔ یہاں پر ایوب خان کو ملنے والی ایکسٹینشن کی بات بھی نہیں کرتے۔ 1970ع میں ہونے والی شفاف الیکشن میں ملک کے دو ٹکڑے ہونا کا بھی ذکر بھی نہیں چھیڑتے۔ ضیاء الحق کی مارشل لا و بھٹو کی پھانسی کا تذکرہ بھی ضروری نہیں۔ 1985ع کی لولی لنگڑی جمہوریت کے نام پر بننے والی جونیجو صاحب کی حکومت کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہتے ۔ شہید رانی بینظیر بھٹو کی 1988ع والی حکومت سے لیکر نواز شریف کی 1999ع والے جمہوری نظام کو بھی بیان نہیں کرتے۔ پرویز مشرف کے دور میں ق لیگ والی حکومت کو بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ 2008ع پی پی پی کو محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ملنے والی حکومت کا ذکر بھی نہیں کرتے۔ 2013 میں نواز شریف کی سرکار کے بارے میں بھی کوئی راء نہیں دیتے لیکن ایک بات کرنے کی گستاخی تو کر سکتے ہیں کہ ملک عزیز کی تاریخ میں عمران خان صاحب کو مسلسل 8 سال تک جس انداز سے مسیحہ کر کے پیش کیا گیا ان سہاروں کو ذکر کرنا تو بنتا ہے۔خان صاحب جس انداز سے سیاسی فلک پر تابندہ ستارہ بن کے ابھرے تھے اس وقت تو یہ محسوس ہو رہا تھا اب ملک میں دودھ اور شہد کی وہ نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی جو سابقہ آمریت و جمہوری ادوار میں بند ہو گئیں تھیں۔ وقت گذرتا گیا ملکی حالات بد سے بد ترین ہوتے گئے عوام کی بدبختی نیک بختی میں تبدیل ہونے کا نام تک لینا گوارہ نہیں سمجھ رہی تھی۔ حتیٰ کہ پی ڈیم اور پی پی پی نے متحدہ اور بعپ کے ساتھ مل کر عدم اعتماد کی تحریک جمع کرا دی اور خان صاحب کی حکومت کو چلتا کردیا۔ جیسے ہی خان صاحب کی حکومت ختم ہو گئی ان کے دل میں اسٹبلشمینٹ کے خلاف ابلنے والے لاوا پھٹ پڑا اور جو انہوں نے کہا وہ ہم سب نے سن بھی لیا اور دیکھ بھی لیا تھا۔
صدر مملکت نے خان صاحب کو ملنے والے اقتدار اور اسے برقرار رکھنے میں باجوہ صاحب کے کردار کی جو منظر نگاری کی اس کے بعد تو سب کچھ صاف ہو گیا کہ خان صاحب بھی اسٹبلشمنٹ کی حمام میں ننگے تھے۔ عوام کو طاقت کا منبع سمجھنے والے خان صاحب سہاروں کی بیساکھی کے ساتھ اقتداری لالچ کی سیڑھیاں چڑھ کر حکمران بنے تھے۔
جب ملک میں جمہوری نظام لاگو ہے تو پھر غیر جمہوری قوتوں مداخلت کرنے کی صدائیں کیوں دی جا رہی ہیں؟ جب طاقتور قوتیں کہہ چکیں ہیں کہ ہم جمہوری نظام میں مداخلت نہیں کرینگے تو بار بار ان کو سسٹم میں مداخلت کیلئے کیوں کہا جا رہا ہے؟ سیاسی فیصلے پارلیامنٹ سے ہٹ کر کورٹوں میں کیوں ہو رہے ہیں؟ جب کہ ہمارا نظام عدل تنزلی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا۔
آخر وہ وقت کب آئے گا جب ہماری جمہوری پارٹیاں غیر جمہوری قوتوں کو مدد کیلئے بلانا بند کرینگی؟ اقتدار حاصل کرنے کیلئے کب تک سہارے تلاش کیئے جائیں گے ؟ کب تک جمہور کا غیر جمہوری استعمال کیا جائے گا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ لوگ بغیر سہارے کے نہیں چل سکتے۔ اگر ایسا ہے تو وہ وقت دور نہیں جب یہ لوگ جمہور کے احتساب کے کٹہرے میں کھڑے کر دیئے جائینگے پھر سے تاریخ کے اوراق پلٹے جائینگے ان کا وہ حشر کیا جائے گا جو پہلے والے سفاک حکمرانوں کا ہوا تھا۔ اس وقت عوام جن تکالیف کو منہ دے رہی ہے اس سے تو یہ لگتا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جس کا انتظار ہیں۔ سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ آخر بھوک بیماری مفلسی لاچاری حکمرانوں کے در کی سلامی کیوں نہیں ہوتی؟ عوام ہی اپنے بچے کیوں بیچنے پر مجبور ہوتا ہے؟ کیا بستر مرگ صرف جمہور کا مقدر ہے؟


