اسپیکر قومی اسمبلی اور تحریک انصاف کے مستعفی ممبران کے درمیان زور کا۔میچ چل رہا لگتا کچھ اس طرح ہے کہ اس میچ کا فیصلا بھی عدالت میں جا کر ہوگا۔ سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال ستمبر 2023 میں ریٹائر ہو جائینگے حکومت چاہتی ہے کہ الیکشن آکتوبر 2023 میں ہو جبکہ عمران خان کی مرضی ہے کہ آج اسمبلیاں ختم کریں اور فوری الیکشن کا اعلان کریں۔
اب آگے کیا ہوتا ہے اس کا پتا تو آگے چل کر لگ جائیگا لیکن تاریخی اوراق اور بزرگوں کی گفتگو سے پتہ چلتا ہے کہ 75 سالوں میں ملک کا "نازک” دور سے گذرنا کبھی ختم نہیں ہوا لگتا کچھ اس طرح ہے کہ یہ "نازک” دور شاید تا قیامت یوں ہمارے ساتھ چلتا رہے گا۔ عوام کی طاقت جمہوریت اور آمریت کے بوٹوں میں بھی شاید ایسی طاقت نہیں تھی جو اس "نازک”دور کو چکنا چور کر کے ملک میں خوشحالی کی ہلکی سی لہر لے آتے۔ ہر ادوار کے حکمران اپنے آپ کو درپیش مسائل سے بری الذمہ قرار دے کر ملک کی تباہی کا سارا ملبہ سابقہ حکمرانوں کو قرار دیتے آیے ہیں۔ بدقسمتی تو یہ بھی ہے کہ جانے والے حکمران یہ دعوی کرتے ہیں کہ انہوں نے ملک تو ترقی کی راہ پر چھوڑا تھا آنے والوں نے اپنے غلط فیصلوں اور کرپشن کی وجہ سے ملک کو پھر سے "نازک” دور میں دھکیل دیا ہے۔ ملک میں ہر طرح کی طرز حکومت کو آزمایا گیا لیکن بدقسمتی سے ملک کا "نازک”دور ختم ہونے کا نام تک نہیں لے رہی۔
ایک طرف عمران خان قبل از وقت انتخابات کیلئے پنجاب اور خیبر پختونخواہ اسیمبلیاں توڑنے کیلئے پر تول رہے ہیں تو دوسری طرف حکومت اسیمبلیان بچانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے ۔آصف زرداری پنجاب اسیمبلی میں اپنا بندہ لانے کیلئے آصف زرداری پنجاب اسیمبلی میں اپنا بندہ لانے کیلئے ہر قسم کے ہربے استعمال کر رہے ہے۔ ایک طرف جوڑ توڑ کی سیاست ہو رہی ہے تو دوسری طرف شہر اقتدار سے ٹیکنو کریٹ حکومت کی صدائیں بلند ہونا شروع ہوگئیں ہیں ۔
یہ صدائیں کوئی نئی نہیں ہیں اس سے پہلے بھی کئی دفعہ یہ آوازیں سننے کو ملیں ہیں۔ جہاں تک مجھے یاد ہے دو تین دہائیوں سے ٹیکنو کریٹ حکومت کی باتیں سنتا آیا ہوں۔ دور نہیں جاتے پاکستان پیپلز پارٹی کی 2008 والی حکومت ہو یا نوازلیگ 2013 والی سرکار یہاں تک کہ عمران خان کی حکومت کے دوران بھی یہ صدائیں بلند ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ کہتے ہیں جس کی لاٹھی اس کی بھینس اس لیے ملک میں کچھ بھی ہونا ناممکن نہیں ہے۔ جب چاہنے والوں نے چاہا تو کوئی بھی نظام لاگو کر کہ ہر قسم کی حکومت لا سکتے ہیں لیکن اگر بات آئین کی کریں تو آئین میں ٹیکنو کریٹ حکومت کی گنجائش کہیں پر بھی موجود نہیں ویسے تو آئین میں گنجائش مارشل لا کی بھی نہیں ہے لیکن ہم دیکھ چکے ہیں کہ ملک میں کئی مارشل لاز لگے اور نظریہ ضرورت کے مطابق ان کو اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے جائز بھی قرار دیا گیا ہے۔
عمران خان کے حالیہ بیان کے بعد کم سے کم یہ تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت قبل از وقت انتخابات کیلئے راضی نہیں ہے۔
الیکشن نہ کرانا بھی حکومت کی مجبوری ہے کیونکہ اس وقت ملک کی معاشی حالت اتنی بگڑی ہوئی ہے کہ اسے سہارا دینا مشکل لگ رہا اس کے ساتھ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بدامنی نے عوام کو پریشان کر کے رکھا ہے نئی سکیورٹی الرٹس میں سکھر اور حیدرآباد کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ کوئٹہ بنو اور سرحدوں کی حالت کوئی خاص نہیں ہے ایسی صورت میں وقت سے پہلے الیکشن کرانا حکومت میں موجود تمام سیاسی پارٹیوں کیلئے سیاسی خودکشی سے کم نہیں۔ اس لیے حکومت چاہتی ہے کہ کم سے کم ایک اچھا بجٹ پیش کر کے اپنے لیے آنے والے الیکشن میں کچھ آسانیاں پیدا کرے۔ نوازلیگ اپنے بکھرے ہوئے پتے آہستہ آہستہ اپنے حق میں کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے نوازلیگ کے ترپ کا پتا نواز شریف ہے اس وقت کے حالات کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ نواز شریف وطن۔واپس آئینگے۔
نواز شریف کیلئے حالات سازگار نہیں کیونکہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ثافب نثار اور فیض حمید کی باقیات ابھی بھی صاحب طاقت ہیں جو نہیں چاہتے کہ نواز شریف کیلئے آسانیاں پیدا ہو سکیں۔ اس بات کا تذکرہ تو پی پی پی چئرمین وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری بھی کر چکے ہیں۔ بلاول بھٹو کو خدشہ ہے کہ اعلیٰ منصب پر بیٹھے کچھ لوگ عمران خان کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ عمران خان صاحب سیاسی کھیل سے آئوٹ ہو جائیں جس کا عملی مظاہرہ سب لوگ دیکھ بھی چکے ہیں ۔ دیکھا جائے خان صاحب جس انداز سے نڈر ہو کر جو زباں استعمال کرتے ہیں ہمارے ہاں یے زبان ناقابل معافی ہے لیکن پھر بھی خان صاحب بچے ہوئے ہیں تو یہ ان کے ڈومیسائل کا جادو ہے یا اداروں میں موجود دوستوں کی مہربانیاں ہیں یا ہماری اسٹبلشمینٹ سچ میں نیوٹرل ہو گئی ہے جو اب تنقید سن کر برداشت کرنے کی عادی ہو رہی ہے۔
جیسے میں پہلے ذکر کر چک ہوں ملک ہمیشہ "نازک” دور سے گذرتا آیا ہے اس لیئے آخری امید شاید یہ ٹیکنو کریٹ حکومت کو ہی سمجھا جا رہا ہے۔ ویسے سننے میں یہ بھی آ رہا ہے کہ راحیل شریف کچھ سابق جنرلز ججز جرنلسٹس بیورو کریٹس اور آء ایم ایف کی ٹیم کے ساتھ مل کر ملک میں کڑا احتساب کرینگے اس احتساب کے عمل کے بعد جو بچ جائینگے ان کے درمیان الیکشن کرایا جائیگا حکومت کی ڈور جیت کر آنے والے کے ہاتھ میں دی جائیگی۔ یہ خواہش ہے ان کی جو ٹیکنو کریٹ حکومت لانا چاہتے ہیں جبکہ اس وقت حکومت میں شامل تمام جماعتیں اور تحریک انصاف ایسے افوہوں کی۔مخالفت کر رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کہیں دوبارہ نظریہ ضرورت کو زندہ کر کے ٹیکنو کریٹ حکومت کو قانونی کور دیا جائیگا یا یہ افواہ بھی پرانی افواہوں کی طرح خودبخود دم توڑ جائیگی ۔


