پاکستان کے با اختیار حکام یا پھر ان کے ترجمانوں سے بات کرنے کا موقع ملے تو یہ ضرور سننے کو ملے گا کہ بری پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھنا ضروری ہے۔ پاکستانی روپے کی قدر کو سنبھالا دینے کے لیئے شرح تبادلہ میں مداخلت کو بھی انہی پیرائے میں دیکھنا ہوگا۔ عوام کی دولت بھاری سبسڈی جاری رکھنے کے لیئے استعمال کرنے کو بھی اسی تسلسل کا حصہ گردانیئے۔اس سبسڈی سے سب سے زیادہ فائدہ ارب پتی سرمایہ کاروں کو ہوتا ہے۔ امپورٹ کنٹرول کو بھی ایک ضروری طریق کار سمجھنا ہوگا۔ کم شرح سود پر بڑے بزنس مینوں کو قرضہ دینے کے لیئے نوٹ چھاپنا بھی پھر ایک مستحسن طریق کار ہوگا۔ ان رقوم کو ملکی مالیاتی بے راہ روی کو جاری رکھنے کے لیئے استعمال کرنا بھی کوئی برا عمل نہ ہوگا۔ تو پھر اسے کیوں برا عمل سمجھا جائے کہ ہر آنے والا حکمران کشکول اٹھائے بھیک مانگنے چل پڑتا ہے؟ پھر تو زرعی آمدن پر ٹیکس لگانے کی تجویز بھی فضول ثابت ہوگی۔ اثاثوں اور دولت پر ٹیکس لگانا بھی غیر ضروری ہوگا۔ کئی دہائیوں سے یہی عمل جاری ہے۔ ذرا سی گروتھ سامنے آئی تو اس سے حاصل ہونے والے ذرائع کو بھی برباد کردیا گیا ۔ یہی تو اصل پالیسی ہے اس ملک کی۔گروتھ کرنا اور اس کے بعد ایک بار پھر کریش کرجانا۔ اور اس بے راہ روی سے نکلنے کا کوئی راستہ تلاش نہ کرنا۔ 2016 میں امپورٹ کنٹرول شروع کیا گیا۔ وقفے وقفے سے اس پالیسی میں ردوبدل کیا گیا لیکن اس سے جان نہ چھڑائی گئی۔ شرح تبادلہ میں کئی بار مداخلت کی گئی لیکن اس سے بھی کوئی مثبت نتیجہ حاصل نہ کیا گیا۔ نوٹ چھاپنا کاروبار بڑھانے کیلیئے موافق ثابت ہوتا ہے۔ لیکن 2017 کے بعد سے یہ عمل بار بار ہوا۔ 2000 کے بعد سے ہر حکومت نے ٹیکس بنیاد وسیع کرنے کے نام پر اقدامات کیئے۔ کبھی زور زبردستی کی گئی کبھی بہلا پھسلا کر ٹیکس دھندگی پر راغب کرنے کا طریقہ اپنایا گیا۔ ہربار منہ کی کھانی پڑی۔ گروتھ حاصل کرنے کے لیئے کبھی کم شرح سود کا فارمولہ اپنایا گیا اور کبھی فکسڈ ایکسچینج ریٹ کا۔ مشرف کے دور میں اسی سے گروتھ حاصل کی گئی۔ ن لیگ کی گزشتہ حکومت میں بھی یہ فارمولے آزمائے گئے۔ ان فارمولوں کے نتیجے میں دونوں بار اکانومی کریش کی صورتحال سامنے آئی۔ دونوں بار حکومتوں نے ان فارمولوں کی بین بجائی اور کریش کا الزام آنیوالی حکومت کے سر لگایا۔ پی ٹی آئی حکومت نے ان فارمولوں پر عملدرآمد میں نیا ریکارڈ بنایا۔ اس نے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم برائے پراپرٹی لانچ کی اور ساتھ ہی شرح سود کو کم رکھا۔ ایکسچینج ریٹ کو منجمد رکھا اور نتیجہ وہی نکلا۔ ایک اور کریش کا پاکستان کو سامنا کرنا پڑا۔ فائدہ صرف پراپرٹی سپیکولیٹرز کو ہوا۔ پی ٹی آئی نے بھی گروتھ کے گیت گائے اور کریش کو آنے والی حکومت کی غلط پالیسی کا نتیجہ قرار دیا۔ یہ ملک انتہائی ناقص پالیسیوں کی تجربہ گاہ بنا رہا ہے۔ اس ملک میں اب بھی یہ دلیل دی جاتی ہے کہ بری پالیسیوں کا تسلسل جاری رہنا چاہیئے۔ پراپرٹی ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے بھی بڑے سہانے خواب دکھائے گئے۔ کریش کے بعد پھر وہی منترا، کہ امپورٹ کنٹرول ملک کے لیئے ضروری ہے۔ اس سے شرح مبادلہ میں بہتری آئیگی۔ ایسے دلائل کے بعد پاکستان کو ہمیشہ بے وقوفانہ پیکیج ملتا ہے۔ اور ایسے پیکیج سے کریش ریورس نہیں کیا جاسکتا۔ معیشت کے ساتھ مذاق جاری رہا ہے، اور جاری رکھنے پر اصرار کیا جارہا ہے۔ ہمارے سامنے ہے کہ ملک ان پیکیجز کے باعث تباہی کے غار میں مزید گرتا جارہا ہے۔ اس مرض کا کوئی تو نام ہوگا۔ جب کئی چیزیں بہتر ہورہی ہوتی ہیں؛ اور کوئی ایک برا عمل جاری رہتا ہے۔۔۔اس عمل کا کوئی تو نام
ہوگا۔ مجھے نہیں معلوم۔ تاہم یہ کیسے ہوتا ہے، مجھے اس کا کچھ اندازہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ برے فارمولوں کے لیئے کوئی بھی دلیل کارآمد نہیں ہوتی۔ لگتی کارآمد ہے لیکن ہوتی نہیں۔ اپنا عمل دکھانے کے بعد ایسے فارمولوں بارے دیئے گئے دلائل کسی کو یاد نہیں رہتے۔ ایسے فارمولوں کو مسلسل اپنا کر معیشت کو ناکام بنایا جاتا ہے۔ اور ناکامی کا احساس تلخ ہوتا ہے۔ اس میں ایک بار پھر ناکام فارمولوں کو اپنانے کی امنگ ابھرتی ہے۔ اب ملک ایسے مقام پر پہنچ چکا ہے کہ اچھے محسوس ہونے والے فارمولوں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیئے۔ جب تک ہم بنیادی مسائل حل نہیں کرتے کوئی فارمولہ کام نہیں دے گا۔ کوئی کریک ڈائون یا بیل آٹ پیکیج پاکستان کی معیشت بہتر نہیں کرسکتا۔ یہ ملک 21ویں صدی میں عالمی معاشی طاقتوں کے ساتھ مقابلے میں ہے۔1980 میں ترتیب دیئے گئے فارمولے اس مقابلے میں کسی کام کے نہیں۔ اکانومک کامن سینس سے کام لیا جائے۔ امیروں سے ٹیکس لینے کی ہمت پیدا کی جائے۔