صدر اجلاس زعمائے کرام جمعیت علمائے اسلام کے سوشل میڈیا سے وابستہ میرے نوجوان ساتھیو ہمارے اس اجتماع کو کوور کرنے والے میرے محترم صحافی بھائی آج کے اس کامیاب اجتماع کے انعقاد پر میں جمعیت علما ئے اسلام کی سوشل میڈیا ٹیم کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں انہوں نے ایک کامیاب اجتماع کا انعقاد کیا ہے اور یہ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے میں بذات خود سوشل میڈیا کی جدید تکنیک کے بارے میں مہارت نہیں رکھتا ہمارے نوجوان اور نئی نسل اس فن کو بہت زیادہ جانتی ہے میرے اپنے گھر میں بعض دفعہ میرے پوتے مجھے سکھاتے ہیں تو یقینا اس حوالے سے جو آپ کا شغف ہے اور آپ کی دلچسپی ہے یہ قابل قدر ہے قابل تعریف ہے اور خدا کرے کہ اپ اس مشن کو کامیابی کے ساتھ آگے بڑھاتے جائیں اکرم دورانی صاحب نے بہت مختصر خطاب کیا اور کھڑے ہو کر کیا مجھے پتہ ہے کہ وہ بھی کھڑے ہو کر لمبی تقریر نہیں کر سکتے لیکن جوانی اپنے نام الاٹ کر دی تو میں بھی آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میں اس سے زیادہ جوان ہوں اس وقت بڑی سنجیدگی کے ساتھ اس بات پر ہمیں غور کرنا ہے کہ ہماری مشکلات کیا ہیں کچھ حقائق ہیں جسے ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے مریض اگر مرض کو تسلیم ہی نہیں کرتا ڈاکٹر کو رجوع ہی نہیں کرتا تو مرض بڑھتا جائے گا اور اس کا علاج نہیں ہو سکے گا پاکستان داخلی مشکلات سے بھی دوچار ہے اور بیرونی خطرات سے بھی دو چار منہیس القوم ہمیں اپنے وطن کے لیے سوچنا پڑے گا معاملات وقت کے ساتھ ساتھ گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں گتھیاں سلجھانے کے بجائے اور مشکل ہوتی جا رہی ہیں یہ قومی مسئلہ ہے ہم نے اگردس ،بارہ سال پہلے نشاندہی کی یہ کسی کے ساتھ ہمارے کوئی ذاتی جنگ نہیں تھی ہم نے کسی کو گالی نہیں دی آپ برصغیر کی تاریخ کو پڑھیں کیا بر صغیر کی تاریخ میں ہمیں وہ طبقہ نہیں ملتا اپنے ہی ہم وطنوں کا اپنے ہی ملک خاص طبقے کا جو انگریز کی غلامی پر فخر کرتا تھا جو برصغیر پر انگریز کی انگریز کے قبضے کو جائز سمجھتا تھا اس کا وفادار تھا اس کے بدلے میں مراعات وصول کرتا تھا چاہے وہ جاگیرداروں کی صورت میں تھے چاہے وہ کچھ بڑے بڑے درگاہوں کی صورت میں تھی تو کیا اب ہم وہ بات نہ کریں وہ ہمیں کہیں کہ آپ ہمیں انگریز کا وفادار کہتے ہیں یہ تاریخ کا حصہ ہے اب یہ حقیقت ہے کیا ہمارے ملک کے اندر وہ جماعتیں یا ان جماعتوں کے اہم شخصیات حتیٰ کہ آج بھی کیا وہ لوگ نہیں ہیں جو امریکہ کے وفادار رہتے ہیں امریکہ کے پالیسیوں کی پیروی کرتے ہیں اس کو پاکستان میں نافذالعمل کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں تو پھر کیا ہم ان حقائق سے آنکھیں چرا لیں کیا ہم اس کا تذکرہ ہی نہ کریں تو اگر ہماری نظر میں ایک ایسا عنصر ملکی سیاست میں داخل ہوا کہ جس نے دنیا کی یہودیت سے ہدایات لیں تو اس کو تشت باب کرنا یہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے ہم نے پہلے بھی کیا ہے اور آئندہ بھی کریں گے انشااللہ العزیز یہ ایک نظریاتی جنگ ہے اس نظریاتی جنگ کو نظریاتی طور پر ہم نے لڑا ہے اور الحمدللہ ہم نے اس کو زخمی کیا ہم نے اس کو گرایا ہے اور ہم اس کو سمجھتے ہیں کہ ہم نے اسرائیل کے ایجنڈے کو بھی شکست دی ہے ہم نے مغرب کے ایجنڈے کو بھی شکست دی ہے ہم نے امریکی ایجنڈے کو بھی شکست دی ہے اور پاکستان میں ان کی وفادار اور ان کے ایجنٹوں کو بھی شکست دی ہے یہ ایک نظریاتی جنگ ہے لوگ اقتدار کی جنگ لڑتے ہیں لوگ مفادات کی جنگ لڑتے ہیں لیکن ہم نے اپنے نظریاتی تسلسل کو برقرار رکھا ہے ہم اپنے منٔہج سے ہٹے نہیں ہیں اور نوجوانوں کو اس بات پر اعتماد کرنا چاہیے ہم بلاوجہ بات نہیں کر رہے ہمیں کیا دشمنی تھی ان کے ساتھ جب 2002 میں میں پارلیمنٹ کے اندر وزیراعظم کا کینڈیڈیٹ تھا تو مجھے تو ووٹ دیا تھا انہوں نے اور آج تک ہمارے اندر کوئی خامی نہیں نکال سکا سوائے گالیوں کے اور آج میں آپ لوگ بھی کبھی کبھی میسج میں یہ بات کر لیتے ہیں کہ فضل الرحمان آج کل خاموش ہے بات نہیں کر رہا کیوں نہیں کر رہا وہ میری روایات ہیں میں جس سے جنگ لڑتا ہوں پھر اس کی بھی ہاتھ کھلے ہونی چاہیے میری بھی ہاتھ کھلے ہو میرا مخالف قید میں ہو میں اس کے خلاف جلسے اور تقریریں کروں مزہ نہیں آتا لیکن نظریاتی جنگ اپنی جگہ برقرار ہے اس تسلسل میں کوئی فرق نہیں آئے گا لوگ کہتے ہیں
میں چاہتا ہوں ہر سیاستدان کے لیے ہر سیاستدان کے لیے کہ وہ جیل سے باہر ہولیکن اگر قانون کے گھیرے میں آیا ہے تو پھر قانون تو پھر قانون ہوتا ہے نہ میں اس سے مستثنیٰ ہوں نہ آپ مستثنی ہے نہ کوئی اور مستثنیٰ ایک بہت بڑا ڈپلومیٹ میرے پاس آیا مغربی دنیا کا بڑا اہم ڈپلومیٹ تھا مجھے کہنے لگا کہ ہم ان کی گرفتاری پر ہمیں تشویش ہے میں نے کہا مجھے بھی تشویش ہے اے کاش کہ میں نے کہا آپ کو اس وقت بھی یہ تشویش ہوتی جب تین دفعہ ملک کا وزیراعظم رہنے والا سی کلاس میں پڑا ہوا تھا جب تین دفعہ ایک صوبے کا وزیراعلیٰ سی کلاس میں پڑا ہوا تھا اس وقت آپ لوگوں نے اس پر کوئی تشویش کا اظہار نہیں کیا یہ آپ کا نمائندہ تھا اس لیے آپ کو تشویش ہے پھر کہا یہ جو گرفتاریاں ہو رہی ہیں اس پر ہمیں تشویش ہے تو میں نے کہا کہ یہ حملہ ملک آپ کے ملک میں آپ کے پارلیمنٹ پر ہوتا یا آپ کے کسی فوجی ہیڈ کوارٹر پہ ہوتا تو پھر آپ کیا کرتے کہا ہمارے ہاں تو قانون حرکت میں آتا تو میں نے کہا یہاں بھی قانون حرکت میں آیا ہے ٹرمپ نے اور ٹرمپ کے لوگوں نے امریکہ میں وہ ہل پارک ہے حملہ کیا ہے اس پہ حملہ کیا وہ ریاستی مقام ہے اور تمام لوگوں کو جیلیں ہوئی عمر بھر کی جیلیں ہوئی بعض کو پھانسی کی سزا تک دی گئی تو اگر امریکہ کے لیے اپنا ایک ریاستی مرکز وہ اتنا تقدس رکھتا ہے پھر پاکستان کی بھی ریاستی ادارے ہیں اختلاف تو ہم نے بھی کیے ہم سے بڑے جلسے کس نے کیے ہیں ہم سے بڑے ملین مارچ کس نے کیے ہیں کیا ہمیں پتہ نہیں تھا کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کی قیادت اس جرم میں شریک تھی ہمیں پورا ادراک تھا لیکن ہم نے افراد کے اختلاف کو نہیں دیکھا ہم نے اداروں کا احترام کو دیکھا فرق ہوتا ہے سیاست اپنے حدود کو سمجھنا چاہیے ہم اپنے حدود کو بھی سمجھتے ہیں قانون کے حدود کو بھی سمجھتے ہیں اور اس کے اندر بھرپور اپنی طاقت کا مظاہرہ بھی کر سکتے ہیں الحمدللہ لیکن ہمیں آج یہ دیکھنا ہے کہ پاکستان کا پورا انتظامی ڈھانچہ میری ناقص رائے میں ممکن ہے میں کوئی زیادہ حساس ہوں اور یہ بات کر رہا ہوں کہ ملک کا مجموعی انتظامی ڈھانچہ اس وقت زوال پذیر ہے اسٹیبلشمنٹ ہو یا بیور وکریسی اس کی گرفت کمزور ہے ملک کے اندر چاروں صوبوں کے اندر جو مرکز گریز قوتیں ہیں یا مذہب بیزار قوتیں ہیں وہ اپنے اپنے علاقوں میں اپنی گرفت اور اپنے اثر کو مضبوط کیے جا رہے ہیں اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی پر عوام کا اعتماد کمزور ہوتا جا رہا ہے قوم کی ناراضگیاں بڑھ رہی ہیں اور پھر معاشی لحاظ سے ہم ذبوں حالی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں جہاں دنیا میں معیشت کمزور ہو جائے وہاں قومی وحدت بھی ساتھ ساتھ کمزور ہو جاتی ہے وہاں وطن کے ساتھ ملک کے ساتھ کمٹمنٹ کمزور ہو جاتی ہے اور ہم نے تجربہ کیا ہے گزشتہ جو پانچ سال گزرے ہیں ساڑھے تین چار سال جن کی حکومت رہی اور ملکی معیشت کی عمارت کو گرایا تو خطرہ تھا کہ مختلف صوبوں میں بغاوتیں شروع ہو جائیں مختلف علاقوں میں بغاوتیں شروع ہو جائیں یہ جمیعت علمائے اسلام تھی جس نے تمام پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر رکھا چاہے وہ قومی سطح کی جماعتیں تھیں چاہے وہ علاقائی جماعتیں تھیں چاہے وہ قوم پرست جماعتیں تھیں سب کو ہم نے ایک پلیٹ فارم پر رکھا تاکہ ملکی وحدت کو بچایا جا سکے تاکہ کہیں کسی جگہ میں لوگ بغاوت کی طرف نہ چلے جائیں ورنہ یقین جانیے جہاں ہم گئے ایئرپورٹ پہ گزرے جہاز میں چڑھتے ہوئے باہر نکلتے ہوئے کہیں روڈ پر کھڑے ہوئے جو شخص ملا سر اس مصیبت سے کب جان چھوٹے گی اس نے تو مار دیا اس کے علاوہ کوئی بات کسی کی نہیں اور میں نے اس وقت بھی یہ کہہ دیا تھا جب ابھی عدم اعتماد نہیں ہوا تھا تو میں نے پبلک جلسوں میں کہا تھا کہ معیشت اتنی گر گئی ہے کہ اس معیشت کو اب دوبارہ اٹھانا یہ مشکل کام ہو جائے گا اور اب آپ دیکھیں مشکل ہے یا نہیں ارتصاد کو ایک چیز ایسی چیز نہیں ہے کہ 10 سال 15 سال بالکل ایک ہی سطح پہ رہے یہ اونچ نیچ رہی تھی مجموعی قومی پیداوار کے شرح بھی مختلف ہوتی رہتی ہے لیکن آپ خود اندازہ لگائیں کہ 2017 18 کے بجٹ پہ ہم نے مجموعی قومی پیداوار کی شرح چھ اور ساڑھے چھ فیصد تک کردی اور پھر جب یہ لوگ آئے بظاہر بڑے دیانتدار سب کچھ اور کہنے والے خود گھڑی چور جب یہ آئے تو ان کے وقت میں پاکستان کی سالانہ مجموعی قومی پیداوار زیرو سے نیچے یعنی مائنس میں چلی گئی تھی یہ دن بھی توقوم نے دیکھا ہے جب آپ کے سٹیٹ بینک میں زر مبادلہ کے ذخائر ریزروز صرف دو ارب ڈالر رہ گئے تھے جبکہ ہم نے 17 ارب ڈالر چھوڑے تھے پوری دنیا کی معیشت میں پاکستان 24 نمبر پہ آگیا تھا اگر یہ بیچ میں لوگ نہ ہوتے آج جی 20 کا پاکستان ممبر ہوتا ہمارے پڑوس میں ابھی جی 20 کا اجلاس ہوا ہے پاکستان اس کا ممبر ہوتا وہاں شریک ہوتا لیکن ان ساڑھے تین سالوں میں پاکستان دنیا کی معیشت کے 47 نمبر پہ چلا گیا اچھل رہے ہیں بات کو سمجھتے ہی نہیں ہے کہ ہم نے کیا کیا ہے اس ملک کے ساتھ حکومتی گرفت کمزور کر دی اور ابھی تک کمزور ہے بیچ میں عدم اعتماد آیا حکومت بنی گیارہ ،بارہ جماعتوں کی لیکن میں کہتا رہا کہ ملک اس حد تک نیچے جا چکا ہے کہ یہ اب دلدل ہے دلدل دلدل سے آدمی نکلنے کی کوشش کرتا ہے لیکن دھستا چلا جاتا ہے ہمارا صوبہ ہے غربت اپنی جگہ پر ہے مہنگائی اپنی جگہ پر ہے لیکن بدامنی اور خوف کا کیا عالم ہے آئے روز خونی کھیل کھیلا جا رہا ہے قبائلی علاقوں میں روزمرہ کے حساب سے کتنے لوگ گولی کا نشانہ بنتے ہیں جمعیت علما ئے اسلام پر کیوں حملے ہوئے کس کے اشارے سے ہوئے باجوڑ کا حادثہ کیوں درپیش ہوا اور حادثے سے پہلے کوئی سال ڈیڑھ سال کے اندر میرے 20 علما کیوں شہید کیے گئے اور اس کے بعد بھی سلسلہ جاری مستونگ میں کبھی کسی زمانے میں مولانا عبدالغفور حیدری پہ حملہ ہوا 26 ساتھی شہید ہوگئے یہ ابھی حافظ حمد اللہ کے اوپر اور ابھی عید میلاد میں پھر ہوا 50 60 لوگ اس میں شہید کر دیے گئے جہاں اس حد تک قتل و غارت گری ہو جہاں اتنا زیادہ خون بہے وہاں امن وہاں سکون وہاں اطمینان کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے کیسے وہاں کا شہری گھر سے نکلے گا اور اس اطمینان کے ساتھ کہ شام کو گھر واپس محفوظ آئے گا تو پورا ڈھانچہ آپ کا ہل چکا ہے کراچی گلی کوچوں میں جرائم سماجی جرائم، ایم این اے اور ایم پی اے سے گاڑیاں چھین لی جاتی ہیں لے جاتے ہیں ان سے پنجاب کا تاجر پریشان زمیندار پریشان آج کشمیر میں پورے کشمیر میں پاکستان کے خلاف ریاست کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں اگرچہ اس کا بنیاد ایک وہاں کا مقامی مسئلہ ہے کہ منگلا ڈیم کشمیر میں ہے اور پاور ہائوس پاکستان میں ہے بجلی پاکستان میں جمع ہوتی ہے اور پھر ہمیں مہنگے داموں بیچی جاتی ہے بجلی کی بلوں کے خلاف وہاں لوگ نکلے ہیں لیکن اس سے پاکستان پر بھی اعتماد ختم ہوگا نا کشمیری کا اس کی بھی کوئی اثرات ہو ںگے نا اس کی بھی کچھ نتائج ہوں گے پھر کل نہ معلوم ہم کدھر جا رہے ہیں کون لوگ ہیں جو چار پانچ اپنے ایک کمرے میں بیٹھ کر پورے ملک کے اور عوام کا اور ہر چیز کا فیصلہ کرتے ہیں اور اپنے آپ کو عقل کو سمجھتے ہیں میں جب کچھ کمزوریوں کا ذکر کرتا ہوں تو ہمارے صحافی برادری ہم مجھ پر تبصرے کرتی ہیں کہ یہ الیکشن ملتوی کرنا چاہتا ہیالیکشن ملتوی نہیں ان کی غلط فیصلوں کی نشاندہی کر رہا ہوں الیکشن کے لیے تو ہم نے 2018 کا الیکشن تسلیم نہیں کیا ساڑھے تین سال ہم نے دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کیا اور ہمیں الیکشن سے ڈرایا جاتا ہے جو ہمیں الیکشن سے ڈراتا ہے وہ ذرا اس صوبے کے بلدیاتی الیکشن کے نتائج دیکھ لیں کہ کیا ہم ڈرنے والے ہیں یا ہم سے کوئی ڈر رہا ہے لیکن اس کے باوجود مغربی دنیا آج بھی ان کی پشت پر ان کی لابیز یہاں کام کر رہی ہیں یہ ایک پارٹی کے لیے کام نہیں کر رہی یہ ریاست کے خلاف کام کر رہے ہیں اس کا راستہ ان نوجوانوں نے روکنا ہے تو آج اس وقت آپ نے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہے گلگت بلتستان میں کیا سوالات پیدا ہو رہے ہیں کبھی کسی نے سوچا اس بات پہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام آباد ہمارے حقوق کا استحصال کر رہا ہے اور ہمیں فرقہ وارانہ جھگڑوں میں الجھا دیتا ہے ہم آپس میں لڑ رہے ہوتے ہیں پنجاب میں فرقہ واریت پھیلا دی جاتی ہیں ہمارا صوبہ کتنی مرتبہ اس فضا سے گزرا بلوچستان گزرا ہے اس سے حالانکہ وہاں فرقہ واریت دور دور کی بھی کوئی چیز نہیں تھی لیکن وہاں پر بھی عناصر پیدا کیا گیا ہم نے سیاسی نقصان اٹھایا لیکن ہم نے غلط کو غلط ہی کہا کہ غلط غلط ہے ہمیں عوام میں جانا چاہیے ہمیں عوام کو اعتماد دلانا ہے کہ ہم آپ کے حقوق کے محافظ ہیں میں سیاسی جماعتوں سے بھی کہنا چاہتا ہوں سب لوگ لگے ہوئے ہیں الیکشن کمپین میں سمجھتے ہیں کہ اگلا الیکشن میں ہم کامیاب ہو جائیں گے یہ کوئی بری بات نہیں ہے یہ سب کا حق ہے لیکن ترجیحات تو دیکھو آپ الیکشن کی فکر میں ہیں اور ادھر ریاست جو ہے ڈوب رہی ہے آپ کی پاکستانیوں کے ہاتھ میں اگر کسی کے ہاتھ میں ڈالر ہے باہر بھیج رہا ہے سمگل ہو رہا ہے وہاں سے لوگ ترسیلات روک رہے ہیں پیسہ پاکستان نہیں بھیج رہے سرمایہ کاری ملک کے اندر نہیں ہو رہی اب آپ مجھے بتائیں کہ ان حالات میں اگر پاکستان کے اندر کوئی بندوق اٹھاتا ہے اور اس جذبے کے ساتھ کہ میں تو جہاد لڑ رہا ہوں یہ ایک جذبہ تو ہو سکتا ہے یہ خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن اس کا آغاز کرنے سے پہلے حالات کو سمجھ کر اس کے انجام پر بھی نظر رکھنی چاہیے اس کے نتائج کیا ہوں گے نتائج یہ ہوں گے اس کے کہ آپ کا انتخابی عمل مخدوش ہو جائے گا باہر سے سرمایہ کاری بند ہو جائے گی پاکستان میں امن نہیں عدم استحکام ہے سیاسی لحاظ سے بھی معاشی لحاظ سے بھی ایک دفعہ ہم نے ملک کو دیوا لیہ پن سے نکالا دوبارہ اس طرف جا سکتا ہے اور پھر ہمیں پڑوس کے ممالک سے جنگ اور تلخی ہم اس کے متحمل نہیں ہیں بھائی ہندوستان سے چلو وہ ہمارا دشمن اس سے تو ہمیں کسی خیر کی توقع نہیں لیکن ایران سے ہمارے تعلقات خاطرخواہ ہیں اور افغانستان سے بھی حالات آئے روز ہمیں نظر آ رہا ہے کچھ تلخیاں پیدا ہورہی ہیں بظاہر تو کہا جا رہا ہے کہ غیر قانونی طور پر جو ملک میں رہتے ہیں وہ باہر چلے جائیں لیکن غیر قانونی طور پر پاکستان میں رہنے والے وہ صرف پشتون تو نہیں ہے لیکن ہاتھ ڈالا گیا صرف پشتون پر کیوں اور پھر جائز اور ناجائز کا کوئی فرق نہیں اس کو پکڑو اس کو پکڑو اس کو پکڑوجس کے جیب میں کارڈ بھی ہے اس کو بھی پکڑو نکالو یہاں سے آپ مجھے بتائیں اپ پٹھان لوگ ہیں بحیثیت پشتون بھی اور بحیثیت مسلمان بھی ہماری روایات کیا ہیں اگر ایک مہینہ اور ایک سال بھی آپ کا مہمان آپ کے گھر میں رہے اور آپ اس کی خدمت کرتے رہیں اور گھر سے نکالے تو ایک لات مار کر گھر سے نکالو آ پ بتائیں کہ آپ کو ایک سال کی پوری خدمت داری ختم نہیں ہوگی وہ کہیں دنیا میں یہ کہے گا کہ اس نے مجھے ایک سال گھر میں پالا تھا وہ یہی کہے گا مجھے اس نے لات مار کر گھر سے نکالا مسئلہ کیا پیدا ہو گیا ایک دم سے اسی لیے ہم نے کہا تھا کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ ایک کمیشن قائم کیا جائے جو باہمی مسائل کو مفاہمت کے ساتھ طے کرے افغانستان میں تو 20 سال جنگ رہی مگر اس سے پہلے 20 سال اور بھی لگا دو 40 سال سے وہاں جنگ ہے ابھی کچھ وہاں امن آیا ہے تو وہاں پر اگر کوئی حکمران ہے آپ اس کو اپنے برابر کے معیار کا سمجھ لیں کہ ان کے رویے بھی میرے معیار کے برابر برابر ہونے چاہیے وہ بھی اتنا ہی میچور ہو جتنا میں میچور ہوں اس کو اتنا ہی ذمہ داری کا احساس ہو جتنا کہ مجھے ذمہ داری کا احساس ہے اس کے لیے تو کچھ وقت کا انتظار کرنا پڑے گا نا اور پھر ہماری بیوروکریسی پولیس افسران گدھ کی طرح ان پہ جھپٹ رہے ہیں کسی سے زمین کھینچ رہے ہیں کسی سے پیسے کھینچ رہے ہیں کیا حشرکر دیا ان لوگوں نے یہ انسانی حقوق ہے میں دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیموں کو دعوت دیتا ہوں کہ آئیں پاکستان میں اور آج اس وقت پاکستان میں افغان مہاجرین کے حوالے سے انسانی حقوق کا مطالعہ کرے کہ ہو کیا رہا ہے پاکستان کا ہر مسئلے کا کوئی راستہ ہوتا ہے ہر مسئلے کو سلیقہ ہوتا ہے آج ایک بات کہہ دی اور آج نہ ہو سکی تو کل کا انتظار ہی نہیں کرنا فورا جھگڑے کا اعلان کرتے احتیاط کی ضرورت ہے ہم مشکل میں ہیں اور ہم روز بروز اپنی مشکل میں اضافہ کیے جا رہے ہیں نگران حکومت ہے نگران حکومت ہے پتہ نہیں نگران حکومت کی ضرورت کیا ہے کہاں سے یہ کنسپٹ نکلا ہے دنیا میں تو کہیں ایسا نہیں ہے جس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے اور ان بیچاروں پر اگر آپ تنقید کریں تو آدمی اپنے اپ کو برا بھلا لگتا ہے کہ میں اس کو کیا کہوں ان کے بارے میں تو معزور ہیں بیچارے میں دعوت دیتا ہوں سنجیدگی کی طرف آنا ہے میں دعوت دیتا ہوں اپنے عملات کو صحیح معنوں میں سمجھنے کا اور تجزیہ کرنے کا تمام پارٹیوں سے کہنا چاہتا ہوں ان کی قیادت سے درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ اس وطن عزیز کو بچانے کے لیے سوچیں اگر میری آواز پر کوئی لبیک کہتا ہے الحمدللہ نہیں کہتا تو پھر یہ فقیر تنہا بھی یہ علم لے آگے بڑھے گا اقلیتیں غیر محفوظ ہیں ہمارے ملک میں ان کے گھروں کو جلا دیا جاتا ہے ان کی عبادت گاہوں کو جلا دیا جاتا ہے کب اسلام کی یہ تعلیم ہے مزدور طبقہ پریشان ہے، کسان پریشان ہے، کوئی ایک طبقہ تو ایسا نہیں جو مطمئن ہو عام دکاندار پریشان ہے لہذا آج ملک کو اور قوم کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے اسی مقصد کے لیے ہم نے آگے بڑھنا ہے انتخاب جب آئیں لیکن یہ جو الیکشن کمیشن نے کہا ہے نا کہ جنوری کے آخر میں تو آدھے پاکستان میں تو برف ہوگی اتنی سی بات کہہ کر تبصرہ کرتے ہیں کہ صاحب یہ تو الیکشن ملتوی کرانا چاہتا ہے ادھر ائو نا ہماری طرف تم ذرا جا ئونا وزیرستان سے لے کر چترال تک اور پھر سوات اور شام کے پہاڑوں میں کوہستان تک اور مری تک جا ئوجنوری کے آخری ہفتے میں سیاحت کے لیے لوگوں کو بھیجو نا اس موسم میں خضد ار سے لے کر پورا بلوچستان شمال میں برف پوش علاقے اب یہ بات اگر کرنی ہے تو حقائق زمینی حقیقت ہے کیا ہم اپنے ملک کے موسم کو نہیں جانتے ایک بندہ انہیں علاقوں میں نہیں ہے اگر کسی پولنگ اسٹیشن پر ایک خاص شرح کے ساتھ خواتین ووٹ نہ ڈال سکیں تو اس کو منسوخ کرنے کے لیے دوبارہ الیکشن کرو تو جہاں بندی نہیں ہے اور جہاں ووٹ ہی نہیں پڑ سکے گا اس کا کوئی لحاظ نہیں ہے تو ہم نے ایک مشورہ دیا ہے الیکشن کمیشن کو بھی ذرا اگر یا تو آئین کے مطابق کرو تو 90 دن کے اندر کرو تو نومبمر میں کرو اور اگر سب نے اتفاق رائے کے ساتھ نئے مردم شماری کے تحت الیکشن کرانے کی دستخط کیے ہیں پیپلز پارٹی نے بھی کی ہے اور تمام پارٹیوں نے بھی کئے ہیں تو پھر الیکشن کمیشن نے نئی شماری کے تحت نئی حلقہ بندیاں بھی کرنی ہے اور ہمارے ساتھ تو خوب ہوا یہ جو کہتے تھے نا قوم پرست کے قبائل کا انضمام کرو انضمام کرو فاٹا کا انضمام کرو اب انضمام تو ہو ہو گیا کتنے سال ہو گئے چھ سال ہو گئے اب چھ سال میں ان کو یہ پتہ نہیں چل رہا کہ ہم اب قبائل ہیں یا ہم سیٹلی علاقے کے بندوبستی ہیں نمبر دو میں شمار ہوئے نہ ہیوں میں نا شیو ں میں یکے بکے پریشان کتنا اطمینان دلایا گیا ہے وہ آپریشن وہ آپریشن کوئی 10 12 آپریشن کرائے ملک سے علاقے میں اور آج اس سے کہیں برا حال اس سے کہیں بڑی تعداد میں لوگ آئے اس سے کہیں اچھے اسلحے کے ساتھ لوگ آگئے پولیس کی تو اپنی چوکیاں بند کر دی ہیں رات کو ایک کی دن کو دوسرے کی حکمرانی ہوتی ہے اور ہمیں کہا گیا اطمینان ہے اطمینان کس کا اطمینان ہے میں پھر کہتا ہوں آپ سے کہ الیکشن کمپین بھی مانگتا ہے علاقے میں جانا بھی پڑتا ہے درانی صاحب آپ اپنے علاقے میں جا سکتے ہیں آپ جا سکتے ہیں اپنے علاقے میں گھوم سکتے ہو میرا بھی یہی حال ہے ابھی پرسوں ہمارے ضلع ٹانک کے میئر کو صدام پر راکٹ فائر کیا گیا فائرنگ کا تبادلہ ہوا اللہ نے بچا لیا ایک سال پہلے ان پر حملہ ہوا تھا اب ان حالات میں کوئی کیسے کمپین کے لیے نکلے مجھے پتہ ہے جب وزیراعظم شہباز شریف صاحب وہاں علاقے میں آئے تو ان کی سیکیورٹی کا کیا انتظام کیا گیا تھا اور کیسے کیا گیا تھا کس طرح وہ آئے اور کس طرح محفوظ وہاں سے نکلے ہیں آپ تو ٹی وی میں دیکھتے ہیں وزیراعظم اتر گئے بات کر لیا اور چلے گئے خیر خیریت سے کوئی خیر خیریت نہیں تھی یارتو یہ ساری چیزیں وہ ہیں کہ جس کو ہم نے اپ جانچنا ہے ان چیزوں کے اور اس پر ہم نے کام کرنا ہے 14 اکتوبر کو جب آپ مفتی صاحب کا کانفرنس کریں گے تو یہ کانفرنس عام کانفرنس نہیں ہوگی یہ آپ کے پورے صوبے کی سیاست کو پلٹ دیگی انشااللہ العظیم صرف صوبے کو نہیں یہ پورے ملک کی سیاست کو تبدیل کر دے گی انشااللہ اور ہمیں پورے ملک میں جانا ہوگا پنجاب میں بھی جانا ہوگا، سندھ میں بھی جانا ہوگا اور وہاں بھی ہم انشااللہ اس دفعہ مکمل پورا الیکشن لڑے یں گے انشااللہ یہ چیزیں ہماری مد نظر ہونی چاہیے اس کانفرنس کو آپ نے کامیاب کرنا ہے اور ایک بات میں آپ سے عرض کروں ہاں انضمام کیا ہوا آپ چھ قومی اسمبلی کی سیٹوں سے محروم ہو گئے اور غالبا آٹھ ہمارے سینٹ کی سیٹوں سے آپ محروم ہو گئے ہم نے چیخ چیخ کر ان سے کہا کہ ابھی وقت نہیں ہے ابھی وقت نہیں ہے ذرا صبر کرو حالات نہیں ہیں اس کی موافق لیکن مجھے واضح طور پر کہا گیا کہ امریکہ کا دبائو ہے یہ ہے ہمارے آزاد حکومت یہ ہے ہماری آزادی تو اس حوالے سے فاٹا کے لوگ آج غیر محفوظ ہیں ایک ایک گھر غیر محفوظ ہے پہلے سے تباہ حال قبائل انضمام کے بعد بے گھر بھی ہو گئے اور دربدر بھی ہو گئے زندگی بھی ان کی خطرے میں ، کیسی زندگی گزارتے ہیں وہ لوگ بہت سخت لوگ ہیں تو یہ وہ مشکلات ہیں جو آپ کے ملک میں اس وقت سامنے ہیں ہماری ریاست کے سامنے ہیں جس کی ذمہ داری صرف ایک فوج کی نہیں ہے ایک بیوروکریسی کی نہیں ہے اور اگر وہ اکیلے سمجھتے ہیں کہ ہم حل کریں گے میں 10 دفعہ لکھ کر دینے کو تیار ہوں کہ وہ اکیلے حل نہیں کر سکتے ہم اس پہ قومی سوچ کو ڈیولپ کرنا چاہتے ہیں آئیں ہم آگے بڑھیں ہم سوچیں افغانستان کے ساتھ ہم نے کیا کرنا ہے ہم اس کے لیے کردار ادا کرنے کو تیار ہیں کیا مسائل ہیں ہم کیا چاہتے ہیں وہ کیا چاہتے ہیں روز روز کی شکایت ہے اگر آپ کریں گے تو وہ بھی کریں گے تلخیاں بڑھیں گی اور کوئی فائدہ تو نہیں ہوگا لہذا سوچ سمجھ کر ہمیں آگے قدم اٹھانے چاہیے ہماری باتوں کو خیر خواہی پہ عمل کرنا چاہیے یہاں تو مصیبت یہ ہے کہ اگر میرے رائے سے کسی نے اختلاف کیا تو بس جیسے وہ میرا دشمن ہو گیا نہیں ممکن ہے آپ کو اختلاف رائے میں مجھے رہنمائی مل جائے مجھے ایک اچھی سوچ مل جائے وہ اختلاف رائے اگر نیک نیتی سے ہو تو وہ تو رحمت ہے اس کا تو خیر مقدم ہونا چاہیے یہ وہ چیزیں ہیں کہ جس حوالے سے ابھی آج اپ نے دیکھا ایک اسرائیل ہے اور اس کو تسلیم کرو اس کو تسلیم کرو اس کو تسلیم ہونا چاہیے اس کو تسلیم ہونا کمبخت کے بچوں فلسطین کدھر گیا قبضہ مسلمانوں کے قبلہ اول پہ ہوا ہے وہ بھول گئے ساری دنیا اور اسرائیل کو تسلیم کرو اور اسرائیل کو تسلیم کرو آج پھر صورتحال وہاں بگڑی ہے اور یہ رد عمل ہے جو کچھ انہوں نے مسلسل بیت المقدس بھی کیا جمعے کی نماز میں لوگوں کو قتل کیا نماز کے دوران انہوں نے حملے کیے مسلمانوں کے لاشیں مسجد سے نکلی کب تک برداشت کریں گے آخر کوئی مسلمانوں کے لیے نہیں کہتا کہ یہ انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے لیکن مسلمان کا دشمن چاہے قادیانی ہو اس کے لیے کہا جاتا ہے عوام کو پتہ ہونا چاہیے کہ آئی ایم ایف نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ہم پاکستان کو اگلی قسط تب دیں گے اگر قادیانیوں کی عبادت گاہوں کو تحفظ دینے کا ہمارے ساتھ عہد کیا جائے گا تو بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے یا نہیں یہ لوگ کسی کے ایجنٹ ہیں یا نہیں ہیں تو یہ کیوں ایسی بات کرتے ہیں مرزا غلام احمد قادیانی نے تو خود اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ میں انگریز کا خود کاشتہ پودا ہوں خود لکھا ہے اس نے اب یہ سارے اس کے خود کاشتہ پودے کیساتھ ہے
جو مسلمانوں کے حملے کر رہے ہیں ان کی نظریات پہ ان کے عقائد پہ ،پتہ نہیں یہ کیا کیا کچھ کہہ رہے ہیں اور پھر ایک تو ہوتا ہے اختلاف رائے ایک یہ کہ ایک مسلمان ایماندار کلمہ گو اس کو آپ کافر بھی کہیں اور اس کا خون بھی اپنے لیے حلال سمجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ ساری دنیا ایک طرف ہلاک ہو جائے یہ اللہ کے لیے اتنا مشکل نہیں جتنا اللہ پر بھاری ہے ایک مسلمان کا خون بہا ایک مرتبہ اور نبی علیہ الصلو والسلام نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اگر آسمان کے لوگ زمینوں کے لوگ اکٹھے ہو جائیں ایک مومن کا خون بہائیں تو میں ان تمام کو جہنم میں ڈال دوں گا ایک خون کے بدلے میں پورے کائنات کو میں جہنم میں ڈال دوں اب آپ علمائے کرام سے پوچھیں تو علماء کہتے ہیں کہ اگر ایک شخص شراب پیتا ہے اور شراب کو گناہ سمجھتا ہے تو وہ گنہگار ہے اور کافر نہیں ہے لیکن اگرشراب پیتا ہے اس کو حلال سمجھتا ہے تو کافر ہے زنا کرتا ہے اور زنا کو گناہ سمجھتا ہے اللہ کے سامنے اپنے آپ کو شرمندہ سمجھتا ہے تو پھر وہ گنہگار ہے کافر نہیں ہے اگر چوری کرتا ہے اور چوری کو حرام سمجھتا ہے ڈاکہ کرتا ہے ڈاکہ کو حرام سمجھتا ہے تو پھر حرام کرنے والا اگر اس کو حرام سمجھ کر کرتا ہے تو یہ گناہ کا مرتکب ہے کافر تو نہ ہوا لوگ لیکن اگر ایک اس کو حلال سمجھتا ہے تو اس میں تو یہ کافر ہو گیا اب مسلمان کا خون مومن کا خون اپنے لیے حلال قرار دینا اس کے قتل کو جائز سمجھنا اور حلال سمجھنا یہ کفر نہیں تو پھر اور کیا ہوگا اور ہم پر فتوے لگاتے ہیں یہ جمہوریت والے ہیں اس لیے کافر ہیں تم جمہوریت کو جانتے ہی نہیں ہو جاہل کے بچوں اپنی جہالت تو ہمارے اوپر مت تھوپو نہ تمہیں جمہوریت کی تعریف آتی ہے نہ دنیا میں کوئی اس کی ایک تعریف ہے تو اس حوالے سے آپ نے اپنے سوشل میڈیا کی دنیا کو موٹیویٹ کرنا ہے اسے ایکٹیویٹ کرنا ہے اس کو متحرک بنانا ہے اور سنجیدہ انداز کے ساتھ تاکہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ مذاق اڑا رہے ہیں گپ شپ لگا رہے ہیں یہ فیک ائی ڈیز جو ہیں نا اس کا بھی مقابلہ کرنا ہوتا ہے ایک ایک غلط بات کرتا ہے اس کے پیچھے جناب ایک کروڑ فیک آئی ڈیز ہوتی ہیں اس میں ایک منٹ کے اندر 100 200 اور 5 سوہزار لائکس آ جاتی ہیں مجھے لوگ بتاتے ہیں مجھے تو پتہ نہیں ہے وہ کہتے ہیں او ہو یہ کیا ہوا ہے جھوٹ پر جس کی سیاست مبنی ہو پروپیگنڈے پر جس کی سیاست مبنی ہو وہ تو ختم ہو جائے گی وہ تو نہیں رہے گی آج نہیں تو کل ختم ہو جائے گی باطل باطل ہے باطل کہتے ہی اسے ہے جو مٹ جائے اور حق حق ہے حق کہتے ہیں اسے ہیں جو ہمیشہ رہے تو آپ نے حق کے ساتھ رہنا ہے انشااللہ
آپ ہمیشہ رہیں گے اور تاریخ اسلام میں بہت سی وہ جھونکے آئے ہیں ہوائوں کے بہت سے فرقے آئے زمانوں میں حکومتیں بھی کی انہوں نے آج نام و نشان تک نہیں ہے امت جانتی ہی نہیں ان کو ان لوگوں کو بھی کل امت نہیں جانے کی پرواہ ہی نہیں لیکن آج جب تک وہ فتنہ ہے جب تک اس کا دجل ہے تو پھر آپ کے زمانے میں اگر یہ ہے تو آپ پر ان کا مقابلہ کرنا واجب ہے دلیل کے ساتھ مقابلہ کریں ہم بندوق اٹھانے والے لوگ نہیں ہیں ہم ملک کے قانون اور آئین کی پابند ہیں اور اس پابندی کے ساتھ ہم ملک میں بات کرتے ہیں سچی بات کرتے ہیں حق بولتے ہیں جتنا ہمارے معلومات ہوں کتنا ہمارے بس میں اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہمت کریں 14 اکتوبر کو مفتی صاحب رحمہ اللہ کی یاد میں جو کانفرنس ہو رہی ہے اس کے لیے بھرپور تیاریاں کریں انشااللہ ایک تاریخ ساز ہو گی اور پوری تاریخ کو تبدیل کریں گے انشااللہ اللہ تعالی کامیابی سرفراز فرمائے قبول فرمائے اور اپنے حفظ و امان میں رکھے الحمدللہ رب العظیم