نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ صاحب کے جبری گمشدگیوں یا لاپتہ افراد سے متعلق خیالات سن کر محسوس ہوتا ہے کہ انکے نگران وزیر قانون احمد عرفان اسلم اُنکو کچھ زیادہ وقت نہیں دیتے، بلکہ جس قسم کی قانونی توجیہات نگران وزیر اعظم لاپتہ افراد کے مسئلے پر دیتے ہیں یوں لگتا ہے انہوں نے یا انکے وزیر قانون نے این ڈی یو سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اندازہ کریں کے ایک ملک کاُوزیر اعظم کہہ رہا ہے کہ خفیہ اداروں پر شھریوں کو گرفتار کر کے طویل عرصہ غائب رکھنے کی وجہ یہ ھیکہ اِس مُلک کی پارلیمنٹ نے اِس حوالے سے کوئی قانون سازی ہی نہیں کی، یعنی کے اِس ملک میں شھریوں کو اغوا کر کے غائب کرنے کو قانونی تحفظ دے دیا جاتا تو یہ مسئلہ ہی نہ پیدا ہوتا۔ بلوچستان سے نگران وزیر اعظم ہونے کا یہ فائدہ تو ہوتا ہے کہ لاپتہ افراد کے مسئلے کیوجہ متعلقہ اداروں کی ماورا آئین اور قانون کاروائیاں نہیں بلکہ پارلیمنٹ کا اِن کاروائیوں کو تحفظ نہ دینا سمجھا جاتا ہے۔
۲۰۱۴ میں اے پی ایس میں دھشت گردی کے واقعے میں ڈیڑھ سو سے زائد بچوں اور اساتذہ کے قتلِ عام کے بعد آئین میں پندرہویں ترمیم کے ذریعے شھریوں کو طویل عرصے تک بغیر بتائے یا کہیں پیش کئیے خفیہ مقامات یا انٹرنمنٹ سینٹرز میں رکھا جا سکتا تھا۔ مگر ایسا کرنے کے لئیے آئین میں ترمیم کرنا پڑی تھی جسکی مدت محض دو سال تھی، اب اگر بقول نگران وزیر اعظم کے کسی قانون کے نہ ہونے کے باعث شھریوں کو اٹھایا جاتا رہے گا تو پھر ایسے ہی ریاستی اختیار کی خاطر آئین میں ترمیم کیوں کرنا پڑی تھی؟ اور اب اُس ترمیم کی مدت ختم ہونے کے بعد ریاستی اداروں کو کونسا قانون شھریوں کے اغوا اور انہیں لاپتہ کرنے کی اجازت دیتا ہے چاہے وہ ایک شھری ہو یا ایک سو۔