مستقبل کی جمہوری بنیاد کو مضبوط کرنا ہے تو ماضی کے پوشیدہ جھروکوں کا بھی جائزہ لینا ہوگا ۔دیکھنا ہو گا کہ میاں صاحب اور خان صاحب کیوں اور کیسے نکالے گئے ،ان دونوں کے نکالے جانے میں کتنی مماثلت ہے اور کتنا فرق ؟میاں صاحب اقتدار سے نکلے تو کہتے رہے مجھے کیوں نکالا ؟خان صاحب حکومت سے رخصت ہوئے تو جنرل باجوہ کو مورد ِالزام ٹھہراتے رہے۔ دونوں کے نکالنے میں ایک قدر ِمشترک تو بہرحال ہے کہ دونوں کی رخصتی جنرل باجوہ کے دور میں ہوئی میاں صاحب کو نکالنے کیلئے می لارڈز کا کندھا استعمال ہوا اور خان صاحب کو انکے مخالفوں نے اکٹھے ہو کر عدم اعتماد کے ذریعے رخصت کیا۔
میاں صاحب کو نکالنے کے حوالے سے بہت سے معاملات ابھی پسِ پردہ ہیں۔اصل میں میاں صاحب کے معاملات جنرل راحیل شریف سے ہی خراب ہو گئے تھے حالانکہ جنرل راحیل شریف کا تقرر بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا تھا۔ جنرل راحیل شریف نے آرمی چیف بنتے ہوئے جن چار یا پانچ سینئر جرنیلوں کو اپنا مشیر بنایا وہ سارے میاں صاحب کے خلاف تھے اور یہی مشیر ہر روز جنرل راحیل شریف کو بھڑکاتے تھے۔ ایک خلیجی ملک کے سربراہ نے جب جنرل راحیل شریف کو 60 کروڑ ڈالر کا جہاز تحفتہً پیش کرنے کا وعدہ کیا تو میاں صاحب نے جنرل راحیل شریف کو منع کیا کہ آپ یہ جہاز نہ لیں مگر راحیل شریف نے یہ بات نہ مانی وزیراعظم نے اپنے سیکرٹری سے اس حوالے سے باقاعدہ خط لکھوایا مگر جنرل راحیل شریف نے یہ جہاز منگوا لیا۔ دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ سعودی عرب کے دورے کے دوران جب میاں صاحب کی شاہ سلیمان سے ملاقات ہوئی تو اچانک انہیں بتایا گیا کہ جنرل راحیل شریف مجوزہ اسلامی فوج کے سربراہ ہونگے۔ وزیر اعظم کو بہت صدمہ ہوا کہ انہیں تو علم تک نہیں تھا، انہیں اندھیرے میں رکھ کر بالا ہی بالا یہ فیصلہ کر دیا گیا ۔صورتحال کچھ ایسی تھی کہ میاں صاحب کو فوراً ہاں کرنا پڑ گئی نہ انہیں سوچنے کا وقت ملا اور نہ مشورے کا۔تیسرا واقعہ یہ ہوا کہ سعودی وزیر دفاع سے پاکستانی وفد کی ملاقات طے تھی وزیراعظم اور وزیر دفاع خواجہ آصف کو بتائے بغیر بلکہ ان سے چھپا کر جنرل راحیل شریف کو وفد کا سربراہ بنا دیا گیا۔ وزیر اعظم کو پتہ چلا تو انہوں نے خواجہ آصف کو کہا کہ نہیں آپ وفد کی سربراہی کریں گے اور پھر ایسا ہی ہوا۔ آخری تنازع جنرل راحیل شریف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا تھا جنرل راحیل نے کئی پیغام رساں بھیجے مگر میاں صاحب توسیع پر نہ مانے حالانکہ انہیں یہ بھی پیام دیا گیا کہ پانامہ کا معاملہ حل ہوجائے گا۔اگر آپ نے توسیع دے دی تو۔ میاں صاحب توسیع پر نہ مانے اور جنرل باجوہ کو لے آئے جنرل باجوہ شروع میں میاں صاحب کے حامی تھے جنرل راحیل شریف اور انکے مشیروں کے خلاف تھے دھرنے میں ان کی حمایت پر باقاعدہ کھلے عام بول چکے تھے، مجھے کہا کہ جنرل راحیل شریف نے جہاز لیکر غلط کیا تھا۔ جنرل باجوہ پانامہ کے معاملے میں یہ کہہ چکے تھے کہ میں اس میں نہیں آئوں گا دوسرا وہ چاہتے تھے کہ ڈان لیکس کے ذمہ داروں کو حکومت سے نکالا جائے جنرل باجوہ سے معاملات کی خرابی ڈان لیکس پر ہوئی، کہا جاتا ہے کہ ڈار صاحب نے باجوہ صاحب سے مشورہ کرکے فواد حسن فواد کو کہا کہ خط جاری کردیں، خط جاری ہوا تو باجوہ صاحب نے ٹویٹ بھی کروا دی اور ناراض بھی ہوگئے بعد میں معاملات کو درست کرنے کی کوشش بھی کی گئی مگر پھر یہ سنبھل نہ سکے اور اداروں اور می لارڈز کے باہمی اشتراک سے میاں صاحب کو نااہل قرار دے دیا گیا۔
خان صاحب کو جنرل باجوہ اور اسٹیبلشمنٹ کے باقی ساتھی بڑے شوق سے اقتدار میں لائے، نواز شریف کی رخصتی کے بعد ہی سے سارا وزن خان صاحب کے پلڑے میں ڈال دیا گیا۔ 2018ء کے الیکشن میں مقتدرہ نے پورا زور لگا کر نون کو ہروایا اور تحریک انصاف کو جتوایا۔خان صاحب اقتدار میں آگئے تو جنرل باجوہ شروع میں انکے بہت حامی رہے میڈیا میں خان صاحب پر تنقید کرنے والوں کو وارننگ دی جاتی تھی مگر پھر حالات تبدیل ہونے لگے جنرل عاصم منیر کو آئی ایس آئی سے ہٹایا گیا تو یہ فوج کے حوالے سے خان صاحب کا پہلا بڑا فیصلہ تھا اس پر عملدرآمد تو ہوگیا مگر ایک حلقے میں تلخی پھیل گئی۔ جنرل باجوہ اور انکے ساتھی جہاں بزدار اور محمود خان کی گورننس سے نالاں تھے وہاں گوگی اور پنکی پیرنی کی منفی اطلاعات بھی ان تک پہنچتی تھیں۔ جنرل باجوہ نے خان صاحب پر سب سے پہلی تنقید اپنے اندرونی حلقے میں شروع کی، ایک نقطہ تو یہ تھا کہ یہ احتساب اور اپنی تعریفوں کے علاوہ کوئی اور بات نہیں سنتے جنرل باجوہ چاہتے تھے کہ اپوزیشن سے بھی کوئی معاملہ طے ہونا چاہئے۔ انکی تنقید کا دوسرا نقطہ یہ تھا کہ معیشت زبوں حالی کا شکار ہو رہی ہے خان صاحب کی حکومت کے آخری چھ ماہ میں جنرل باجوہ نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ خان صاحب کو لاکر بہت بڑی غلطی ہوگئی اب اس کا مداوا کرنا پڑے گا۔ جنرل باجوہ کا اس دوران ملک محمد احمد خان کے ذریعے شہباز شریف سے مسلسل نامہ و پیام بھی جاری تھا تاہم جنرل باجوہ ، خان صاحب کو ہٹانے کے بارے میں آخر تک متذبذب رہے ۔بلاول بھٹو بتا چکے ہیں کہ عدم اعتماد کے آخری دنوں میں جنرل باجوہ نے پیغام دیا تھا کہ عدم اعتماد واپس لے لیں لیکن پی ڈی ایم نے ان کا مشورہ نہیں مانا ۔خان صاحب سے مقتدرہ کے فیصلہ سازوں کی اصل لڑائی جنرل فیض حمید کو ہٹانے پر مزاحمت سے ہوئی، کہا جاتا ہے کہ جنرل باجوہ نے یہ ٹرانسفر کا آرڈر خان صاحب سے مشورے کے بعد کیا تھا مگر اسکے باوجود جب آئی ایس پی آر نے ٹرانسفر کا اعلان بھی کردیا تو اس پر عمل نہ کیا گیا یوں شکر رنجیوں میں اضافہ ہوا۔
اسد عمر، پرویز خٹک اور چودھری فواد چاہتے تھے کہ کسی بھی صورت جنرل باجوہ اور مقتدرہ کو ناراض نہ کیا جائے چنانچہ وہ خان صاحب پر زور ڈال کر جنرل ندیم انجم کو آئی ایس آئی کا سربراہ بنوانے میں تو کامیاب ہوگئے لیکن اس دوران جو تلخی پیدا ہو چکی تھی وہ کبھی ٹھیک نہ ہو سکی۔دونوں وزرائے اعظم اقتدار سے نکلے تو دونوں نے ہی مقتدرہ مخالف بیانیہ اپنایا، میاں صاحب نے’ ووٹ کو عزت دو ‘کی بات کی، جنرل باجوہ اور جنرل فیض کو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا۔دوسری طرف خان صاحب نے مقتدرہ مخالف بیانیے کےساتھ ساتھ اپنے سیاسی مخالفوں کو معاف نہ کرنے کا موقف جاری رکھا۔ میاں صاحب نے مقتدرہ کے خلاف جارحانہ بیانیہ ضرور اپنایا لیکن مذاکرات کے دروازے بند نہ کئے جنرل باجوہ کی توسیع کا معاملہ آیا تو اپنے بیانیے کے مخالف جاکر انہیں توسیع دیدی ،خان صاحب یہ لچک نہ دکھا سکے، وہ مقتدرہ سے ناراض ہوئے تو آگے ہی بڑھتے گے تا آنکہ 9 مئی ہوگیا۔ سیاست میں لچک ضروری ہے خان صاحب نے مشکلیں آسان کرنی ہیں تو مذاکرات کا دروازہ کھولیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ