عربی سے جنم لینے والی ایک فارسی ترکیب اردو میں بھی مستعمل ہے__ ’’خلطِ مَبحَث۔‘‘ لُغت میں اس کا مفہوم ہے ’’مغالطے کیلئے اصل موضوع سے ہٹ جانے یا اُسے الجھا دینے کا عمل۔‘‘ سہیل وڑائچ صاحب کا کالم ’’تُسی اُچّے، اَسی قصوری‘‘ اس خلطِ مَبحَث کا شاہکار نمونہ ہے۔ نہ جانے کتنی تحقیق وریاضت کے بعد وہ نومئی کی غارت گری کا موازنہ کرنے کیلئے پاکستان کی تاریخ سے دو مثالیں تلاش کرپائے ہیں۔ پہلی یہ کہ ’’جیالوں نے بھی تو طیارہ اغوا کیا تھا۔‘‘اور دوسری یہ کہ ’’نونیوں نے بھی تو سپریم کورٹ پر حملے کی غلطی کی تھی۔‘‘ طیارہ کسی سیاسی جماعت نے نہیں، مرتضٰی بھٹو کی تنظیم ’’الذوالفقار‘‘ نے اغوا کیا تھا جسے دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا اور وہ اسی داغِ ندامت کے ساتھ معدوم ہوگئی۔ بے نظیر بھٹو نے پی۔پی۔پی پر کبھی اس کا سایہ تک نہ پڑنے دیا۔

9 مئی کے تناظر میں، نونیوں کے سپریم کورٹ پر حملے کا تذکرہ، افلاسِ دلیل کا المیہ ہے۔ میں اُس دن عدالتی کمرے میں موجود تھا۔ راہداری میں ہُلّڑ بازی کے باوجود کوئی ججوں کے کمرے میں داخل نہ ہوا۔ اِس کا موازنہ خان صاحب کے کئی معرکوں سے کیاجاسکتا تھا۔ مثلاً پارلیمنٹ ہائوس پر حملہ، پی۔ٹی۔وی پر یلغار کرکے نشریات بند کردینا، وزیراعظم ہائوس کی ناکہ بندی، مئی 2022میں اسلام آباد پر یلغار اور ڈی چوک میں آتشزنی، مارچ 2023میں ہزاروں کارکنوں کی جوڈیشل کمپلیکس پر چڑھائی، جج پر حملے کی کوشش، خان صاحب کا گاڑی میں بیٹھے بیٹھے حاضری لگا کر رخصت ہوجانا، سب کچھ بجا طور پر پُرجوش سیاسی سرگرمی کے کھاتے میں ڈال دیاگیا۔ ان تمام واقعات میں (2014ء کی وارداتوں سمیت) کسی کو سزا نہ ہوئی۔ لیکن ’’سپریم کورٹ حملہ‘‘ کیس میں مسلم لیگ کے آٹھ راہنمائوں پر توہین عدالت کا مقدمہ چلا۔ سب کو سزائیں ہوئیں۔ سب نااہل ٹھہرے۔ راولپنڈی میں مسلم لیگ (ن) کے سب سے سرگرم راہنما چوہدری تنویر خان کو دوبارہ پارلیمانی سیاست میں آنے کے لئے دس سال انتظار کرنا پڑا۔

ایک اور اچھوتی دلیل یہ لائی گئی کہ ’’کھلاڑی نے جنرل باجوہ کو میر جعفر کہا تھا تو نون خان نے تو بھی گوجرانوالہ جلسے میں باجوہ اور فیض حمید کے نام لئے تھے۔‘‘ بلاشبہ لئے تھے اور درست لئے تھے۔ آج پورا پاکستان اُن کے نام اسی معنی ومفہوم میں لے رہا ہے۔ پھر ارشاد ہوا ’’زرداری خان نے بھی تو اسلام آباد میں جنرل راحیل شریف کو کھلم کھُلا انتباہ کیا تھا۔‘‘زرداری صاحب نے ایک کہنہ مشق سیاستدان کے طورپر چٹکی لیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’تم نے تین سال بعد چلے جانا ہے ہم یہیں رہیں گے۔‘‘ حقیقت یہی ہے کہ تین سال والا راحیل شریف چلاگیا، آصف زرداری یہیں ہے۔ عمران خان نے تو تہذیب کے سارے قرینے روند ڈالے۔ میر جعفر، میرصادق، حیوان، جانور، غدار، سازشی، گھر کو لوٹ لینے والا چوکیدار، کیا کیا کچھ نہیں کہا۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار آرمی چیف کی تقرری کو کوچہ وبازار کا موضوع بنادیا۔ جنرل عاصم منیر کی تقرری کا راستہ روکنے کے لئے راولپنڈی پر چڑھائی کردی۔ آخر ِکار کچھ ریٹائرڈ، کچھ حاضر سروس فوجیوں سے مل کر ادارے میں بغاوت اور عاصم منیر کا تختہ الٹنے کی سازش کی۔ 9 مئی کی سوختہ بخت شام اسی سازش کی پہلی کڑی تھی۔ کیا اس سب کچھ کو نوازشریف اور زرداری کے دوجملوں کے مساوی قرار دیاجاسکتا ہے؟

تحریک طالبان سے مذاکرات تمام سیاسی جماعتوں کا متفقہ فیصلہ تھا۔ عمران خان اس مذاکراتی مشن کے سب سے بڑے حامی تھے۔ تحریک طالبان پاکستان نے تو انہیں اپنی مذاکراتی کمیٹی کا رُکن نامزد کردیا تھا۔ یہ مذاکرات ایسے ہی تھے جیسے کسی خودسرباغی جتھے سے کئے جاتے ہیں۔ یہ آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔ ٹی۔ٹی۔پی نہ سیاسی جماعت ہے نہ اس کا استحقاق مانگتی ہے۔ شیخ رشید احمد کی گرفتاری کی واحد وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی شوخ گفتاری کے باعث پیپلزپارٹی کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتے تھے۔ وہ زیرحراست تھے کہ لال حویلی کے ایک صوفے کے نیچے سے کلاشنکوف برآمد ہوئی۔ شیخ کو لمبی قید سنادی گئی۔ نوابزادہ نصراللہ خان نے اچھا کیا کہ گورنر، صدر اور وزیراعظم کے پاس گئے اور کہا __’’ کیا آپ مسلح بغاوت کرکے اور مخالف فریق کو ہتھیاروں سے شکست دے کر اقتدار میں آئے ہیں یا جمہوری راستے سے منتخب ہوکر؟‘‘ یہ سوال عمران خان سے بھی ہر صبح، ہر شام پوچھا جانا چاہیے تھا جب وہ شمشیر ِغیظ وغضب لہراتے ہوئے کُشتوں کے پُشتے لگا رہا تھا۔ وڑائچ صاحب نے تان اس جملے پر توڑی ہے ’’یہ دلیل آج بھی ہے کہ کھلاڑی خان نے نونیوں کو جیلوں میں بند رکھا ہے، زیادتیاں کی ہیں لیکن کیا اس ردّعمل میں وہی کچھ کرنا جائز ہے؟ ایسا کرنا جمہوریت نہیں انتقام کا تسلسل ہوگا۔‘‘ میرے لئے یہ بات ناقابل فہم ہے کہ مسلم لیگ (ن) یا نوازشریف نے خان صاحب کے خلاف ایسا کیا کیا ہے جسے انتقام کے زمرے میں ڈالا جارہا ہے؟عمران ریاض یا کسی کی بھی گم شدگی اور زبان بندی انتہائی افسوسناک ہے۔ ارشد شریف کا سفاکانہ قتل بہت بڑا المیہ تھا۔ میں دوبار ارشد کے گھر گیا۔ پی۔ٹی۔آئی والے آوازے کستے رہے۔ پہروں اُس کی دل گرفتہ ماں اور اہلیہ کے ساتھ رہا۔ میرے بھائی، جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اس وقت اُن کی وکالت کا ذمہ اٹھایا جب پی ٹی آئی کا کوئی وکیل یہ بھاری بوجھ اٹھانے کو تیار نہ تھا۔ فواد چوہدری کے منہ پر کپڑا ڈالنے اور ہتھکڑی لگانے کے خلاف پہلی توانا آواز میں نے سینٹ کے اجلاس میں اٹھائی۔

نام نہاد کرایہ داری کیس میں نصف شب کو میری گرفتاری، رات کے کپڑوں اور رف چپل کے ساتھ گھسیٹتے ہوئے گاڑی میں ڈالنے، میری بیوی اور بیٹی کو زخمی کرنے، دو دِن کھانے کو کچھ نہ دینے اور اڈیالہ جیل کے ہائی سکیورٹی بلاک کی قصوری چکی میں پھینک دینے کو آپ نے طنزاً ’’ظلم عظیم‘‘ کہا ہے (یقیناً یہ ظلم نہیں، خان صاحب کی خوئے دل نوازی کا مظاہرہ تھا) لیکن خدا لگتی کہئیے__ کرایہ داری کے جھوٹے الزام میں ملوث کسی شخص کے بارے میں کلمۂِ حق کہنا اور 9 مئی کی سازش کے منصوبہ سازوں کے بارے میں صدائے حق بلند کرنا ایک جیسا ہے؟ 9 مئی کی منصوبہ بند سازش، جنرل اکبر خان، بریگیڈئیر ایف۔بی۔علی، جنرل تجمل ملک اور جنرل ظہیر السلام عباسی سازشوں ہی کی ایک کڑی ہے۔ وہ سازشیں منصوبہ بندی کے مرحلے میں ہی پکڑی گئیں، سب کو سزائیں ہوئیں۔ عمران خان سازش جزوی طورپر کامیاب ہوگئی۔ اسے کسی طور ایک سیاسی سرگرمی یا عمومی سیاسی تحرّک کے کھاتے میں نہیں ڈالا جاسکتا۔ پاک فوج کے ایک لیفٹیننٹ جنرل، تین میجر جنرلز اور سات بریگیڈئیرز سمیت اٹھارہ اہل کار اسی سازش سے منسلک ہونے کے باعث سزا پاچکے ہیں۔ عمران خان اور بلوائی، رائیونڈ پر نہیں فوجی تنصیبات پر حملوں کے ملزم ہیں۔ انہوں نے میاں صاحب کے خاندانی قبرستان پر نہیں شہداء کی یادگاروں پر حملہ کیا ہے۔ نوازشریف نے اُن کے خلاف کوئی ایف۔آئی۔آر نہیں کٹوائی۔ لہٰذا بات اُن سے کی جائے جو حقیقی فریق ہیں۔ مفاہمت یا معافی تلافی کی ایک چابی ملزم یا مدعا علیہ کی جیب میں اور دوسری چابی مدعی یا فوج کی جیب میں ۔ نوازشریف بیچ میں کہاں سے آ گیا؟ بہتر ہوگا کہ ’ مبلّغینِ مفاہمت ‘،’ خلطِ مَبحَث ‘کے بجائے چابی برداروں سے رجوع کریں۔