سائفر کوریج پابندی ، شفافیت اور حقائق
تحریر ثاقب بشیر

جیل کی سلاخوں کے پیچھے ٹرائل کریں گے تو مانے گا کون ؟ یہ الفاظ تھے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے جن سے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور اعوان نے بھی اتفاق کرتے ہوئے کہا تھا جیل ٹرائل اوپن ہو گا میڈیا پبلک کو کاروائی کے دوران موجودگی کی اجازت ہو گی پھر عدالت نے اوپن ٹرائل اور پراسس کے پورا نا ہونے کی وجہ سے چار ماہ کا ٹرائل کالعدم قرار دے دیا جس کے بعد دوبارہ جیل میں ٹرائل شروع ہوتا ہے پبلک کا تو پتہ نہیں چل سکا کون جیل سماعتوں کے دوران جاتا رہا ہے میڈیا کے چار پانچ دوستوں کو اجازت دی گئی بہت سے کورٹ رپورٹرز جو اس ٹرائل کو پہلے دن سے کور کر رہے تھے ان کو اجازت نہیں دی گئی ان کے ساتھ بین الاقوامی میڈیا کے صحافی بھی ہر سماعت پر اڈیالہ جیل کے مرکزی دروازے پر ذلیل و خوار ہوتے رہے لیکن اجازت نہیں دی گئی نا ہائی کورٹ نا سپریم کورٹ نے اس معاملے کو دیکھا آخر اجازت کیوں نہیں دی گئی ؟ اس کا کوئی جواب نہیں لیکن ہاں ایک جواب ضرور ہے کہ جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین جیل سماعت کے ہر تحریری حکم نامے میں پہلا پیراگراف ضرور لکھتے رہے میڈیا پبلک کو مکمل اجازت دی گئی سی آر پی سی کی سیکشن 352 پر عمل مکمل عمل درآمد کیا گیا پھر کل اچانک آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی سیکشن 14 کے تحت عدالت نے ان کیمرہ ٹرائل ڈیکلیئر کر دیا حکم جاری ہوا پرنٹ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر جو بھی سائفر کاروائی سے متعلق بات کرے گا پیمرا پی ٹی اے بھی ایکشن لے گا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت بھی کاروائی ہو گی
اب ذرا حقائق پر بات کر لیتے ہیں سائفر ٹرائل عدالتی ریکارڈ میں کیا ہے جو اب تک منظر عام پر نہیں آیا ؟ جس کو پوشیدہ رکھنا مقصود ہے میری assessment کے مطابق سب کچھ ریکارڈ پر آچکا مطلب پرنٹ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر نشر ہو چکا ان میں چالان مکمل جس میں پراسیکوشن کے تقریبا کیس کا 90 فیصد حصہ موجود ہوتا ہے ، سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان ، سابق سفیر اسد مجید ، سابق سیکرٹری خارجہ سہیل محمود ، امریکہ کا جواب سمیت ہر اینگل سامنے آچکا سوشل میڈیا پر ان میں سے سب کچھ موجود ہے 27 مارچ 2022 سے آج تک یہ معاملہ زیر بحث ہے پھر ہائیکورٹ میں ضمانت کی درخواست پر سماعت کے دوران اس سے بھی طویل دلائل ایف آئی اے پراسیکوٹرز نے دئیے تھے جس میں اور بھی معلومات تھیں جو پہلے سامنے نہیں آئیں تھیں وہ میڈیا نے رپورٹ کیا اس دوران جو سیکریٹ تھا وہ اوپن کورٹ میں ہی تحریری شکل میں عدالت کو ایف آئی اے نے دیکھایا تھا عدالت نے پڑھ اور پراسیکوشن کو واپس کر دیا باقی سب کچھ رپورٹ ہو چکا ہے اب اگلا سوال یہ ہے ٹرائل پوشیدہ کرنے کے پیچھے وجہ کیا ہے ؟ وجہ تو سمجھ نہیں آئی کیونکہ میرے نزدیک ایک اسد مجید کے بیان پر جرح یا کوئی سیکریٹ دستاویز یا سائفر گائیڈ لائنز یا سائفر کا متن اگر پراسیکوشن اپنے کیس کی سپورٹ میں عدالت کے سامنے لائے تو وہ ان کیمرہ آپ کر سکتے ہیں باقی سب تو آفس ورک کے معاملات ہیں سائفر دفتر خارجہ کے کس کس ڈیسک سے وزیراعظم آفس پھر وزیراعظم تک پہنچا ہے ان سب گواہوں نے سائفر دیکھا تو ہے نہیں نا ہی انہوں نے متن پر کوئی بات اپنے بیانات میں کرنی ہے جو خفیہ رکھنے کی ضرورت ہے 28 گواہوں کے بیانات میں عمران خان کے خلاف جو بھی کہا گیا وہ سب کچھ لفظ بلفظ میڈیا پر ریورٹ ہو چکا تو پھر مزید کیا چھپانا مقصود ہو سکتا ہے ؟ میرے خیال میں اوپر ذکر کی گئے چند نکات کے علاؤہ کچھ نہیں ، باقی ہماری عدالتوں میں ایک مروجہ طریقہ کار موجود ہے جہاں کچھ confidential ہو سماعت کے اس حصے کو ان کیمرہ کر لیا جاتا ہے آج کل وہ رواج بھی بہت کم ہو گیا لیکن پھر بھی آپشن عدالت کے پاس موجود ہوتا ہے وہ کچھ حصہ کو ان کیمرہ کر سکتی ہے یہاں سائفر ٹرائل میں بھی یہ ہو سکتا تھا لیکن عدالت نے مکمل پابندی لگانا ہی مناسب سمجھا جس پر ٹرائل کی شفافیت پر سوال ضرور اٹھیں گے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اسی قسم کے ٹرائل سے متعلق کہا تھا ان بنیادوں پر عمارت کھڑی نا کریں جو تاش کے پتوں کی طرح کل بکھر جائے پھر آپ ایک سابق وزیر اعظم کا ایک ایسے کیس میں ٹرائل کر رہے ہیں جس میں سزائے موت بھی ہو سکتی ہے اس لئے فیئر ٹرائل اور شفافیت کے لیے ضروری ہے کہ 40 سال بعد کیس کھولنے کی بجائے آج عدلیہ شفافیت کے تقاضے پورے کرائے نہ کہ آلہ کار بنے