عمران خان جیل کوٹھری میں قید، نواز شریف پر نوازشات کی بارش
پی ٹی آئی کو انتخابات سے باہر رکھنے کیلئے ہر حربہ استعمال،
انتخابات میں جمہوری اصولوں کی پامالی ایک بڑا سوالیہ نشان،
کیا نواز شریف اور مقتدر عسکری حلقوں کی ترجیحات ایک ہونگیں؟
چین اور روس کی طرف جھکاؤ، مغرب میں عمران خان کے دوست کم،
عمران خان انتخابات سے باہر ہو سکتے ہیں مگر سیاسی منظر نامے سے نہیں
جیل کوٹھری میں عمران خان کی مضبوطی کے باعث مقبولیت میں اضافہ

دی ٹائمز میں چارلی کیمپبل کا پاکستان کے سیاسی منظر نامے کے حوالے سے خصوصی مضمون

پاکستان کے عمران خان کیلئے گزشتہ چند سال اچھے نہ تھے، اب پاکستان کے فوجی بادشاہ گر ملک کے مقبول ترین سیاستداں اور انکی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر رکھنے کیلئے ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں۔

عالمی جریدہ دی ٹائمز پاکستان کی سیاسی صورتحال پر اپنے طویل مضمون میں جاری بحران کے حقیقی منظر کو بے نقاب کرتا ہے۔ مضمون کا عنوان ہے

Pakistan Can Keep Imran Khan Out of Power, But It Can’t Keep His Popularity Down

چارلی کیمپبل لکھتے ہیں اپریل 2022 وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب بنانے اور برطرفی کے بعد بہت کچھ ہوا ہے۔ کرکٹ کے نامور کھلاڑی اور سیاستدان کو گولی ماری گئی، فسادات سے دہشتگردی تک کے 180 الزامات کا نشانہ بنایا گیا اور بالاخر اب انکو جیل کی 9 بائی 11 کی گھٹیا کوٹھری قید رکھا گیا ہے۔ جیسے جیسے عام انتخابات 8 فروری کی تاریخ قریب آ رہی ہے، وسیع امکانات رکھنے کے باوجود 71 سالہ سیاسی رہنما کی واپسی کا امکان کم ہوتا جا رہا ہے۔

چند گزشتہ مہینوں کے دوران، پی ٹی آئی کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کیا گیا، پارٹی کے درجنوں رہنماؤں نے طویل پوچھ گچھ کے بعد استعفیٰ دے دیا، مین اسٹریم میڈیا پر پابندی عائد کر دی گئی کہ عمران خان کا نام استعمال نہ کریں۔ سیاسی مخالفین کو مبینہ فائدہ پہنچانے کیلئے انتخابی حلقہ بندیوں کو ترتیب دیا گیا اور عمران خان کے کاغذات نامزدگی بھی مسترد کر دئیے گئے۔

یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں سینٹر فارمسلم اسٹیٹس اینڈ سوسائٹیز کی ڈائریکٹر ثمینہ یاسمین کہتی ہیں، ’’انتخابات ہو رہے ہیں لیکن شدید شکوک و شبہات ہیں کہ حقیقی جمہوریت یا جمہوری اصولوں پر عمل کیا جا رہا ہے۔‘‘

سب سے بڑا دھچکہ یہ ہے کہ عمران خان کے پاس اب انکا انتخابی نشان ’بلا‘ بھی نہیں ہو گا۔ پی ٹی آئی پر کرکٹ بیٹ کا مشہور لوگو استعمال کرنے پر پابندی لگا دی گئی، 40 فیصد تک ناخواندہ ووٹرز کیلئے حق رائے دہی استعمال کرنے میں شکوک و شبہات کا امکان نمایاں حد تک بڑھا دیا گیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ عمل ایک جماعت کے طور پر پی ٹی آئی پر مؤثر طریقے سے پابندی لگاتا ہے اور اس کا مطلب ہے کہ اس کے امیدواروں کو ممکنہ طور پر آزاد امیدوار کے طور پر کھڑا ہونا پڑے گا، جو مبینہ طور پر رولر کوسٹر سے لے کر بکرے تک کے انتخابی نشانات استعمال کریں گے۔ پی ٹی آئی کے پرنسپل ترجمان اور عمران خان کے سابق معاون خصوصی رؤف حسن نے ٹائم کو بتایا، "انتخابی نشان منصفانہ انتخابات کا ایک لازمی جزو ہے۔ یہ پابندی پارٹی کیلئے سخت دھچکے کا باعث بنے گی۔‘‘

پاکستانی قانون ساز آئینی طور پر قائد ایوان اور مالیاتی قانون سازی سمیت بعض اہم معاملات کے لیے پارٹی لائن کے ساتھ ووٹ دینے کے پابند ہیں۔ لیکن اگر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار باضابطہ طور پر آزاد حیثیت کے حامل ہونگے، تو وہ ایسی کسی رکاوٹ کے پابند نہیں، جس کی وجہ سے حزب اختلاف کے لیے لوگوں کو ترغیبات کے ذریعے نشانہ بنا کر اپنے ساتھ بہت آسان ہو جاتا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ پی ٹی آئی خواتین اور اقلیتوں کے لیے 200 پارلیمانی "مخصوص نشستوں” کا تناسب حاصل کرنے کے لیے نااہل ہو جائے گی جو کہ پارٹی کے مجموعی ووٹوں کے تناسب کے مطابق مختص کی گئی ہیں، اس طرح تحریک انصاف کی مخصوص سیٹیں دوسری جماعتوں کو مل جائینگیں۔

معاملہ صرف یہاں تک محدود نہیں، آزاد امیدوار کے طور پر رجسٹریشن بھی پی ٹی آئی کے لیے آسان نہیں رہا۔ ہر امیدوار کو اس حلقے میں اپنے کاغذات نامزدگی داخل کرنا ہونگے جہاں سے وہ انتخاب لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن پی ٹی آئی کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی اکثر مشکوک سیکیورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں چھین لیے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں تک کہ اگر کوئی کاغذات جمع کرانے کا انتظام کرتا ہے، ہر امیدوار کو ذاتی طور پر نامزدگی میں شرکت کے لیے ایک تجویز کنندہ اور حمایتی کی ضرورت ہوتی ہے۔ رؤف حسن کا کہنا ہے کہ ’’بہت سے مواقع پر، پی ٹی آئی کے امیدوار اس کوشش میں بھی ناکام رہے چونکہ تجویز کنندہ اور حمایتی، دونوں میں سے ایک کو پراسرار اور اچانک اغوا کر لیا جاتا ہے، اس طرح 90 فیصد امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کروا دئیے گئے، یہ بڑے پیمانے پر پری پول رگننگ ہے۔‘‘

عمران خان اور پی ٹی آئی کو درپیش رکاوٹیں تین بار وزیر اعظم نواز شریف کو دی گئی سہولیات سے یکسر متضاد ہیں، نواز شریف کو 2017 میں بدعنوانی کے الزام میں معزول کیا گیا، 10 سال قید کی سزا ہوئی، 2018 میں نواز شریف علاج کے نام پر بیرون ملک گئے اور مفرور ہو گئے۔ لیکن یہی نواز شریف 21 اکتوبر 2023 کو مکمل صحتمند پاکستان واپس پہنچے، بدعنوانی کی سزا کو سرعت کیساتھ ختم کر دیا گیا، گزشتہ ہفتے ان پر سیاست میں حصہ لینے پر تاحیات پابندی کو بھی ختم کر دیا گیا۔ گزشتہ دنوں 74 سالہ نواز شریف نے چوتھی بار وزیر اعظم بننے کیلئے سیاسی مہم کا آغاز کیا ہے جبکہ پی ٹی آئی ان تمام قانونی مراعات سے محروم ہے۔

عمران خان کی بہن علیمہ خان نے ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’اگلے چند ہفتوں میں جب انتخابی امیدوار جلسے جلوس نکالیں گے تو درجہ حرارت بڑھنے والا ہے، سڑکوں پر عوام کی ناراضگی نظر آئیگی۔‘‘

اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ پاکستان کے فوجی بادشاہ گروں نے نواز شریف کی مکمل حمایت کی ہے، جسکا بظاہر مطلب یہ ہے کہ نواز شریف اقتدار میں واپس آ رہے ہیں۔ لیکن عمران خان کی مقبولیت ختم کرنے کیلئے مزید بھاری ہتھکنڈوں کا استعمال کرنا ہو گا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اقتدار میں رہتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کی کارکردگی سوالیہ نشان بنی رہی، انتہائی ناقص گورننس کے باوجود دسمبر میں ہونیوالے گیلپ سروے کی عوامی رائے نہایت اہم ہے۔ سروے کے جیل میں قید عمران 57 فیصد اور نواز شریف 52 فیصد حمایت رکھتے ہیں، گویا تماتر ہتھکنڈوں کے باوجود عمران خان اب بھی نواز شریف سے زیادہ مقبول ہیں۔ پی ٹی آئی کو یقین ہے کہ اگر منصفانہ مقابلہ کرنے کی اجازت دی گئی انتخابات جیتنا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ بین الاقوامی برادری اس طرح کی ڈھٹائی کی بے قاعدگیوں کے سامنے آنے کے باوجود اس قدر خاموش کیوں ہے؟ خاص طور پر امریکہ، جو جو بائیڈن انتظامیہ کے تحت جمہوریت کے فروغ کو خارجہ پالیسی کی اہم ترجیح بنانے کا دعویٰ کرتا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پاکستان 140 بلین ڈالر کے بیرونی قرضوں میں ڈوب رہا ہے، جب کہ عام لوگ ایشیا کی سب سے زیادہ مہنگائی جھیل رہے ہیں، کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں سال بہ سال 38.5 فیصد بڑھ رہی ہیں۔

ایک بہت بڑا سچ یہ بھی ہے کہ روس اور چین کے ساتھ تعلقات کو ترجیح قرار دینے کے بعد، مغرب میں عمران خان کے دوست بہت کم ہیں۔ واشنگٹن ڈی سی میں ولسن سینٹر میں ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کہتے ہیں، "واشنگٹن کے نقطہ نظر سے، کوئی بھی خان سے بہتر ہو گا۔”

اس کے برعکس شریف کو کاروبار دوست اور امریکہ نواز سمجھا جاتا ہے۔ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد، واشنگٹن کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات چین، یوکرین اور اب غزہ پر منتقل ہو گئی ہیں۔ اس کے باوجود اسلام آباد میں ایک قابل اعتماد پارٹنر کی اہمیت برقرار ہے۔ تازہ ترین واقعہ مبینہ عسکریت پسندوں پر ایرانئی فضائیہ کا حملہ جس میں کم از کم دو بچے ہلاک ہوئے، اہمیت کا حامل ہے، ایسی صورتحال میں کہ جب مشرق وسطیٰ میں کشیدگی تیزی کیساتھ بڑھ رہی ہے۔

پاکستان کو امریکی ترجیحات دہشتگردی پر پردہ ڈالنا اور دشمن کے دشمن بھارت کے ساتھ تعلقات مستحکم کرنا ہیں اور نواز شریف دونوں معاملات میں بہتر ریکارڈ رکھتے ہیں۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ یہ دونوں ترجیحات مقتدر عسکری حلقوں کی ترجیحات میں بھی شامل ہوں، یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ ماضی میں تین بار نواز شریف کی برطرفی کو ممکن بنایا گیا ہے۔ مسقتبل کے حوالے سے کوگل مین کہتے ہیں، "نواز شریف اور فوج کے درمیان بہت زیادہ حساب کتاب باقی ہے، یہاں تک کہ اگر وہ اگلے وزیر اعظم بن گئے، تو سول ملٹری تعلقات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔”

بہر حال بڑی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے کسی بھی وزیر اعظم نے مکمل مدت پوری نہیں کی ہے اور اگر نواز شریف ایک برا پھر وزیر اعظم بنتے ہیں اگرچہ اس معاملے پر بڑے شکوک و شبہات کا اظہار بھی کیا جاتا ہے، اسکی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ عمران خان جیل کی کوٹھری میں سخت مصائب کے باوجود اپنے موقف کیلئے بھرپور طریقے سے کھڑے ہیں۔ علیمہ خان کہتیں ہیں ’’وہ جیل کی سخت سردی میں بھی نہایت خوش ہیں، کتابیں پڑھتے ہیں، روحانی، جسمانی اور ذھنی طور پر مضبوط اور بہتر محسوس کرتے ہیں۔‘‘

شاید عمران خان کے اعتماد کی وجہ یہ ہو کہ اگرچہ فروری میں ہونیوالے انتخابات سے باہر ہو سکتے ہیں مگر سیاسی منظر نامے سے نہیں، پاکستانی عوام ان سے مایوس نہیں، یہ سب اس وجہ سے ہے کہ عمران خان اب بھی نہیں ٹوٹے، نہیں جھکے اور لڑ رہے ہیں۔ رئوف حسن کہتے ہیں ’’ہم الیکشن میں ہونگے، پیچھے ہٹنے والے نہیں، کہیں بھاگ نہیں رہے پورے ملک میں ایک بھی نشست ضائع نہیں ہونے دینگے۔