تحریر :چوہدری شاہد اجمل
پاکستان میں انتخابی عمل کے انتظامات سنبھالنے کے لیے الیکشن کمیشن کی جانب سے افسران کی تعیناتی کی جاتی ہے، ان افسران میں ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران، ریٹرننگ آفیسرز اور ایڈیشنل ریٹرننگ آفیسرزشامل ہوتے ہیں یہ افسران انتخابی عمل کی ابتدا سے لے کر نتائج تک کے ذمہ دار ہوتے ہیں اس لیے انہیں اس اہم ذمہ داری کے ساتھ ساتھ اختیارات بھی دیئے جاتے ہیں،1988سے لے کر اب تک ہونے والے انتخابات میں انتخابی عملی عدلیہ سے ہی لیا جاتا رہا ہے پہلی بار الیکشن کمیشن نے بیوروکریٹس کو بطور انتخابی عملہ تعینات کیا ہے اورحالیہ تاریخ میں یہ پاکستان کے پہلے عام انتخابات ہوں گے جو مکمل طور پر انتظامی افسران یا بیوروکریٹس کی نگرانی میں ہوں گے۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 50 کے تحت ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز اور سیکشن 51 کے تحت الیکشن کمیشن ریٹرننگ افیسرز اور ایڈیشنل ریٹرننگ آفیسرز تعینات کیے جاتے ہیں، ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر (ڈی آر او) پورے ضلع میں الیکشن کا نگران ہوتا ہے اور صوبائی الیکشن کمشنر کو رپورٹ کرتا ہے۔ ڈی آر اور ضلعی سطح پر انتخابی عمل میں کام کر نے والے عملے اورالیکشن کمیشن کے مابین رابطے کا کردار ادا کرتا ہے۔ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر اپنے ماتحت ریٹرننگ آفیسر سے الیکشن کے نتائج حاصل کر کے الیکشن کمیشن تک پہنچاتا ہے۔ڈی آر او ڈی آراو انتخابی عمل کے دوران الیکشن کے قواعد و ضوابط پر عمل کرواتا ہے اور اس کے پاس الیکشن کے قواعد کی خلاف ورزی کرنے والے کو سزااور جرمانہ کر نے کا اختیار ہوتا ہے۔ ڈی آر او کے نیچے ریٹرننگ آفیسرز (آر اوز)تعینات ہوتے ہیں جو انتخابی نتائج کو جمع کر کے ڈی آر او کو بھیجتے ہیں پولنگ سٹیشنز کا عملہ آر او کا ماتحت ہوتا ہے۔آر اوزاپنے اپنے حلقوں میں پولنگ کی نگرانی کرتے ہیں آر او کے پاس پولنگ کے نتائج یزائڈنگ آفیسر ز کی طرف سے بھجوائے جاتے ہیں،ریٹرننگ آفیسر کو جہاں ضرورت پڑے وہ مجسٹریٹ کے اختیارات کو بھی استعمال میں لا سکتا ہے۔
آر اوز اس وقت زیادہ تنقید کا نشانہ بنے جب ان کی جانب سے بڑی تعداد میں امیدواران اور خاص طور پر پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے گئے،قوانین کے مطابق ریٹرننگ آفیسرکی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی بہت احتیاط سے جانچ پڑتال کرے اور یہ دیکھے کہ کاغذات نامزدگی میں مہیا کی گئی تمام معلومات درست ہیں۔ اگر وہ ان معلومات سے مطمئن نہیں ہے تو وہ کاغذات نامزدگی کو مسترد یا منظور کرنے سے قبل ایک مختصر دورانیے کی انکوائری کر سکتا ہے۔اگر کوئی بہت بڑا نقص نہیں ہے تو ریٹرننگ آفیسر کاغذات کو مسترد نہیں کر سکتا اور اس نقص کو صحیح کرنے کی مہلت دے گا۔ نقائص کا تعلق نام یا انتخابی فہرستوں میں سیریل نمبر سے ہے۔ ریٹرننگ آفیسر کسی امیدوار کے کاغذات نامزدگی صرف اسی طور پہ مسترد کر ے گا جب وہ مطمئن ہو کہ وہ امیدوار منتخب ہونے کا اہل نہیں ہے یا تجویز کنندہ اور تائید کنندہ تجویز کرنے اور تائید کرنے کے اہل نہیں ہیں یا پھر تجویز کنندہ اور تائید کنندہ کے دستخط جعلی ہیں۔ ریٹرنگ آفیسر کو کسی بھی امیدوار کے کاغذات مسترد کرنے کی صورت میں اپنے اس فیصلے کی وجوہات لکھناہوں گی۔الیکشنز ایکٹ 2017 کا سیکشن 62 (11) آر اوز سے ہر کاغذات نامزدگی پر اپنے فیصلے کی توثیق کرنے کا تقاضا کرتا ہے، یا تو اسے قبول یا مسترد کرتے ہیں۔
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے ایک خط کے ذریعے الیکشن کمیشن سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ آر اوز کے فیصلوں کو اپنی ویب سائٹ پر شائع کرے فافن نے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے پر نیا اور پرانا ڈیٹا بھی جاری کیا جس سے ماضی اور حال کا موازنہ کیا جا سکتا ہے۔فافن نے کہاکہ انتخابات 2024 میں کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کی شرح 12.4 فیصد رہی جبکہ الیکشن 2018کیلئے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کی شرح 10.4 فیصد تھی جب کہ الیکشن 2013 کے لیے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کی شرح 14.6 فیصد تھی۔فافن کے مطابق آر اوز کے فیصلوں کو مشتہر کرنے سے الیکشن کمیشن شہریوں کو ان فیصلوں کے پیچھے وجوہات کو سمجھنے اور انتخابی عمل کے بارے میں باخبر رائے کی حوصلہ افزائی کرنے کا اختیار دے گا، یہ اقدام نہ صرف انتخابی عمل کی شفافیت کو تقویت دے گا بلکہ غلط معلومات اور غلط معلومات کے پھیلاؤ کے خلاف اس کی ساکھ کے تحفظ کیلئے بھی سود مند ہے۔
فافن کا کہنا ہے کہ الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 62(9) کے مطابق،آراوزکسی امیدوار کی قومی یا صوبائی اسمبلی کے رکن ہونے کی اہلیت میں نقائص کی وجہ سے کاغذات نامزدگی مسترد کر سکتے ہیں۔فافن نے کہا ہے کہ ایسے کسی بھی نقائص کو فوری طور پر دور کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں، بشمول انتخابی فہرست میں نام، سیریل نمبر یا امیدوار کے دیگر تفصیلات کے حوالے سے غلطی۔ یا ان کے تجویز کنندگان یا حمایتی، تا کہ انہیں ووٹر لسٹ میں متعلقہ اندراجات کے مطابق لایا جا سکے، الیکشن کمیشن کو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا ان دفعات کی سختی سے تعمیل کی گئی ہے۔
ماضی میں پاکستان تحریک انصاف عدلیہ کے افسران کی بطور انتخابی عملہ تعیناتی کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہے لیکن بیوروکریٹس کی اس کام کے لیے تعیناتی کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر نے والی بھی تحریک انصاف ہی تھی،پی ٹی آئی کو بیوروکریٹس کے بطور انتخابی عملہ تعینات ہونے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر تحفظات تھے۔لاہور ہائیکورٹ نے انتخابی عملہ بیوروکریسی سے لینے اور آراوز کی تعیناتی کو منسوخ کر دیا، الیکشن کمیشن نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور عدالت عظمی نے لاہور ہائی کورٹ کا آر اوز کی تعیناتی منسوخ کرنے کا حکم معطل کر کے الیکشن کمیشن کو الیکشن شیڈول جاری کرنے کا حکم دے دیا گیا۔
پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ بیوروکریٹس کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات شفاف نہیں ہو سکتے۔ پی ٹی آئی رہنما شعیب شاہین کا کہنا ہے کہ انتخابات کو عدلیہ کی نگرانی میں کروایا جانا چاہیے کیونکہ بیوروکریٹس کی جانب سے ہماری جماعت کو پہلے ہی جانبداری کا سامنا ہے۔ہم سپریم کورٹ کے فیصلے سے مطمئن نہیں۔ شفاف الیکشن کے لیے ریٹرننگ افسران کا شفاف ہونا ضروری ہے۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ دھاندلی کے دروازے کھولنے کے مترادف ہے،
اگر ہم تاہم 2013 اور 2018 کے انتخابات پر نظر ڈالیں تو ان میں بھی نہ صرف دھاندلی کے الزامات لگائے گئے بلکہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی جانب سے 2013کے عام انتخابات کو آر اوز کا الیکشن قرار دیا تھا اور پاکستان تحریکِ انصاف وہ جماعت ہے جس نے 2013کے انتخابات کے نتائج کو نہ تسلیم کرتے ہوئے سلام آباد کے ڈی چوک پر100سے زائد دن تک دھرنا دیا تھا،
ترجمان الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ عام انتخابات 2024 کے لیے اچھی شہرت رکھنے والے انتظامی افسروں کے سروس ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے بعد ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز اور ریٹرننگ آفیسرز کے طور پر تعینات کیا گیا ہے، خیبر پختونخوا کے 36′ سندھ کے 30′ پنجاب کے 41 میں سے 40 اور بلوچستان کے 36 اضلاع کے متعلقہ ڈپٹی کمشنرز ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر ہوں گے، جبکہ ڈائریکٹر جنرل ڈی جی خان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو ڈی آر او تونسہ تعینات کیا گیا اور اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر ڈی آر او اسلام آباد تعینات ہیں، الیکشن ایکٹ کا سیکشن 4(3) کمیشن کو اختیار دیتا ہے کہ وہ انتخابات کے انعقاد کے اپنے آئینی مینڈیٹ کو پورا کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرے اور اس کے لیے الیکشن کمیشن اقدامات اٹھا رہا ہے۔امیدواروں کے کاغذات مازدگی مسترد کیے جانے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ انتخابی رولز کی عدم تعمیل کی صورت میں الیکشن کمیشن سیکشن 55 کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے متعلقہ اہلکاروں کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے اور ایکٹ یا رولز کے تحت کسی افسر کے پاس کردہ آرڈر کا بھی جائزہ لے سکتا ہے، جیسا کہ الیکشنز ایکٹ کے سیکشن 8(e) میں فراہم کیا گیا ہے۔
انتخابی عمل پر گہری نظر رکھنے والے ادارے فیئر اینڈ فری الیکشن نیٹ ورک (فافن)نے اس تاثر کو مسترد کیا ہے کہ بیوروکریٹس کے زیر نگرانی انتخابات میں شفافیت پر سوال اٹھیں گے،فافن کے نیشنل کوارڈینیٹررشید چوہدری کا کہنا ہے کہ 2013 کے انتخابات جوڈیشل افسران کے تحت ہوئے لیکن ان کو بھی آر اوز کا الیکشن کہا گیا۔ کوئی سرکاری افسر ہو یا جوڈیشل افسر، الیکشن ڈیوٹی انہوں نے الیکشن کمیشن کے تحت ہی کرنا ہوتی ہے۔ تمام اختیار کمیشن کے پاس ہوتے ہیں۔ جوڈیشل افسران کو لینے کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ متعلقہ ہائی کورٹ کو لکھا جاتا ہے اور پھر وہ افسران کے نام دیتی ہے۔ اب الیکشن کمیشن نے براہ راست ہی افسران تعینات کر دیے ہیں۔اصل بات الیکشن والے دن کا عمل ہے۔
ایسے میں جب انتخابی عمل کے حوالے سے ملک کی ایک بڑی جماعت کو تحفظات ہیں اور وہ الیکشن کمیشن پر ابھی سے جانبداری کا الزام لگا رہی ہے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں اور امیدواران کو نہ صرف برابر مواقع فراہم کرے بلکہ ان کے تحفظات کو بھی حتی المقدور دور کرے تاکہ تمام جماعتیں انتخابی نتائج کو تسلیم کریں۔