کہنے کو تو پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن ہر سال کھانے پینے کے اجناس باہر سے ہی منگوانے پڑتے ہیں۔ گزشتہ برس عمران خان نے اپنےدور میں گندم کی بمپر فصل اترنے کی خوشخبری سنائی تھی لیکن افسوس کہ وہ گندم کی بمپر فصل کا پتا ہی نہیں چلا کہ وہ گندم کہاں چلی گئی؟ گذشتہ ایک ماہ سے لوگ آٹے کیلئے پریشان ہیں۔ حکومت نے ایک ایسے وقت پر گندم کی امدادی قیمت چار ہزار کرنے کا اعلان کیا جب پورے ملک میں گندم کی بجائی اور کٹائی کی موسم ہی نہیں تھی۔ سرمایہ کارو نے سرمایا لگ کر 2000/2200 میں گندم خرید لی اور حکومت کے اعلان کے بعد وہی گندم اپنے گوداموں میں چھپا کے رکھ دی۔ حقیت یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی مذہب میں ذخیرہ اندوزی حرام ہے لیکن ہمارے ہاں سب کچھ جائز سمجھا جاتا ہے کیونکہ ہمارے لوگوں کو پتا ہے یہاں کچھ ہوتا نہیں قانون کی آنکھوں پر سیاہ پٹی بندھی ہوئی ہے۔ حکمران اور آفیسر شاہی کرپشن کی وجہ سے پہلے ہی اندھے تھے اب تو قلم اور کیمرے کو بھی کچھ نظر نہیں آ رہا۔
جب بد انتظامی رشوت ، اقربا پروری اور حکمرانوں کی عیاشیاں عروج پر پہنچ جائیں تو عوام باہر نکلتی ہے جیسے سری لنکن قوم باہر نکل کر آئی تھی اور ہم نے دیکھا کہ سری لنکا کے حکمرانوں کا کیا حشر ہوا ؟ عوامی طاقت کے آگے بڑے بڑے طاقتور ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ خاص طور جب انسان کا کھانا پینا بند کر دیا جائے یا اس کا حصول مشکل ہو تو انسان سب کچھ بھول جاتا ہے کیونکہ بھوک کے آگے سب عقائد، بڑے بڑے نظریے اور بیانیے فضول سے لگتے ہیں۔ اس لیئے شاید کسی شاعر نے کہا۔۔۔۔
تو کیا جانڑیں یار فریدا
روٹی بندہ کھا جاندی اے۔
واقعے روٹی بندے کھا جاتی ہے۔ عام طور پر تو بندہ روٹی کھاتا ہیں لیکن موجودہ حالات کو دیکھ کر ایسا ہی لگ رہا ہے کہ اگر وقت پڑ جائے تو روٹی بندے(لوگ) بھی کھا جاتی ہے۔ یہ روٹی بندے کی انا، عزت نفس اور غیرت تک کو کھا جاتی ہے جب انسان کی انا، عزت نفس اور غیرت ختم ہو جائے تو وہ انسان ایک مردہ جسم لیکر سانسیں تو لے رہا ہوتا ہے لیکن اپنے اندر کے انسان کو مار دیتا ہے۔ ملک کے موجودہ حالات ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔ امیر اور دوست ممالک سے امداد غریبی دکھا کر لی جاتی ہے لیکن غربت کی جگہ اب غریب ختم ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ اجتماعی خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ لوگ اپنے بچے تک بیچنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ آٹے کے موجودہ بحران کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر عام و خاص سستے آٹے کی گاڑی کے پیچھے بھاگتے نظر آ رہے ہیں۔ رش زیادہ ہونے کی وجہ سے لوگ اپنی زندگیاں داء پر لگا رہے ہیں۔ میرپور خاص میں سستے آٹے کے حصول کیلئےایک شخص اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
آزادی سے لیکر آج تک ہمارا ساتھ جو ہو رہا ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ جب بھی ان سیاسی مداریوں کو اقتدار کے حصول کی بھوک لگتی ہے ہمیں بندر کی طرح نچا کر اپنا مقصد حاصل کرتے ہیں۔ ہماری غریبی کا تماشہ دکھا کر امداد اور قرض حاصل کرتے ہیں۔ ہمیشہ عوام کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا رہا ہے۔ پچھتر سال ہو گئے ہیں بحرانوں سے نکل پائے ہیں نہ ہی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکا ہے۔ غریب کی زندگی اجیرن ہوتی جا رہی ہے لیکن رہنمائوں کی تقریریں آج بھی غریب کی حالت بدلے کے حق میں جاری و ساری ہیں۔ غریب کو سادگی سے زندگی گذارنے کا درس دینے والے خود عیاش زندگی گذارنے میں اس طرح مگن ہیں کہ رات کی رنگینیوں اور دن کی روشنیوں میں پتا ہی نہیں لگتا کہ کیا ہو رہا ہے؟ جمہوریت و آمریت کے کئی ادوار گذر گئے لیکن ملک کی تقدیر تبدیل نہ ہو سکی۔ ہر کسی نے آ کر قوم کو چلتے ہوئے ٹرک کی لال بتی کے پیچھے لگا دیا ہے۔ منزل کا پتا نہیں بس چل سو چل۔ ایسے میں ایک عام انسان کو مستقبل کی فقر نہیں حال کی پریشانی ہے کہ میرا کیا ہوگا؟ سیاسی رہنمائوں نے قوم کو اپنی سیاسی دکانداری کیلئے ہمیشہ استعمال کیا ہے۔ کبھی روٹی کپڑا اور مکان تو کبھی ووٹ کو عزت دو ، کبھی احتساب غلامی اور غداری کا بیانیہ بنا کر سب کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔ بیانیے کے چکر میں ملک دن بدن معاشی بدحالی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ بیرونی قرضوں میں ہوشربہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ملک غیرمستحکم ہو گیا ہے۔ کرسی کے حصول کیلئے اخلاقیات کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ معزز میمبران کی منڈیان سجی ہوئی ہیں۔
ایک عام آدمی سیاستدانوں کی چالاکیوں سے تنگ ہو گیا ہے اب بس یہ کہتا پھر رہا ہے آپ کا نظریہ بیانیہ بھاڑ میں جائے مجھے تو میرے بچوں کیلئے روٹی چاہئے۔ مجھے خوشی تب ملی گی جب میرے بوڑھے ماں باپ کیلئے دوائی آسانی کے ساتھ میسر ہو سکے۔ میرے بچے اچھی اور معیاری تعلیم حاصل کر سکیں۔ اگر میں صبح گھر سے روزی کمانے نکلوں تو شام کو خیریت سے واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس کچھ کما کر آئے۔
انسان چاہتا ہے کہ اس کے جان و مال محفوظ ہو وہ کبھی بھوکا نہ سوئے۔ بیمار ہو تو سسک سسک کر بستر پر نہ مرے۔ تعلیم کے نور سے منور ہو۔ اس کے اہل و عیال کا مستقبل محفوظ ہو۔ آج کل کے ملکی حالات کو دیکھ کر یو محسوس ہوتا ہے کہ کچھ دنوں میں پتا نہیں کیا ہونے والا ہے؟ سیاسی چالبازوں نے اپنی انا کیلئے ملک کو غیر مستحکم کر دیا ہے عوام کے درمیان محب وطن و غدار کی لکیر کھینچ دی ہے۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ اسیمبلیوں میں موجود ایک ہزار کے قریب میمبران ایک سال کیلئے اپنی تنخواہیں اور دوسرے مراعات کی قربانی دے کر دیکھ لیں اور فی کس ایک دو لاکھ ملکی خزانے میں بطور عطیہ جمع کرائیں پھر ان لوگوں کو پتا چلے گا کہ قربانی کیا ہوتی ہے؟ قوم سے قربانی مانگنے والوں کو کبھی تو قربانی دینی چاہئے ایسا نہ ہو کہ وقت ان کو قربان کر دے۔ اگر حکومت لاکھوں روپئے تخواہیں لینے والوں کی تخواہیں کم کرے فضول پروٹوکول پر پابندی عائد کی جائے۔ ایک بندہ ایک گاڑی کا اصول ہو۔ کابینہ کو مختصر کیا جائے۔
میرے خیال میں ایسا کرنے سے ملک و قوم دونوں کا بھلا ہو جائے گا ۔
Hakimmasirani@gmail.com