سیاستدانوں کو تو اقتدار کا سورج زوال ہونے کے ساتھ جیل کی کال کوٹھڑی میں ڈالنا کوئی بڑی بات نہیں تھی لیکن یہ شاید پہلی دفعہ ہے کہ کسی سویلین حکومت میں کسی ریٹائرڈ فوجی کو جیل میں ڈالا گیا ہو۔ پرویز مشرف جیسے آئین شکن جنرل کو ریڈ کارپیٹ بچھا کر الوداعی سلامی دی گئی۔ لیکن اس وقت ریٹائرڈ جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل شروع ہوا ہے۔فیض حمید کی گرفتاری کوئی عام بات نہیں۔ آرمی چیف کے بعد سب سے زیادہ طاقتور عہدہ ڈی جی آئی ایس آئی کا ہوتا ہے۔ ہر حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے فوج کا سپہ سالار اور ڈی جی آئی ایس آئی یہ سوچ کر لگاتی ہے کہ ان کی حکومت کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ فیض حمید کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے جن پر عمران خان ناز کرتے تھے۔ ملکی تاریخ میں دو ایسے ڈی جی آئی ایس آئی گذرے جن کو بڑی پذیرائی ملی ان میں سے ایک تھے جنرل حمید گل اور دوسرے تھے فیض حمید۔ حمید گل افغان جہاد کی وجہ سے مشہور ہوئے تو فیض حمید کو عمران خان کی وجہ سے بڑی پذیرائی ملی۔ یہ وہی فیض حمید ہیں جن کے کندھوں پر عمران خان کی حکومت کا بوجھ تھا۔ عمران خان کی مخالفین کو دبا کر رکھنا انہیں جیلوں میں ڈالنا، چیف جسٹس آف سپریم کورٹ اور ان کی فیملی کو پریشان کرنے والے، فیض آباد دھرنے کے خالق یہی نہیں بلکہ انہیں احتجاج اور دھرنوں کا ماسٹر مائنڈ بھی کہا جاتا ہے۔ 9 مئی کے واقعے سے فیض حمید کو جدا نہیں کیا جاتا یہ وہ الزامات ہیں جو ان کے مخالف فیض حمید پر لگا رہے ہیں کہ یہ الزامات درست ہیں یا جھوٹے ان کا فیصلا تو عدالتوں میں ہوگا لیکن فیض حمید کی گرفتاری اس وقت ہوئی جب خان صاحب صرف فوج سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ فوج کا یہ موقف بھی سامنے آیا ہے کہ پہلے خان صاحب 9 مئی پر معافی مانگیں اس کے بعد بات ہوگی۔ لیکن خان صاحب فوج سے ہی کہہ رہے ہیں کہ 9 مئی میرے خلاف ایک ڈرامہ تھا۔ دوسری جانب فوج نے فیض حمید کو گرفتار کرکے سخت پیغام دیا کہ فیض حمید کی گرفتاری کے بعد براہ راست یا بالواسطہ طور پر خان کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے، اگر فوجی تفتیش میں کوئی فیض حمید کوئی بڑا انکشاف کرتے ہیں تو خان کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ غور طلب بات یہ بھی ہے کہ اگر فیض حمید نے پریس کانفرنس کر دی تو خان صاحب کی سیاست کا سورج ہمیشہ کیلئے غروب ہو سکتا ہے جس کی وجہ آرٹیکل 6 کی باد گشت بھی سننے کو ملے گی۔ عمران خان اب تک 9 مئی کی ذمہ داری قبول نہیں کر رہے، لیکن اگر 9 مئی کی کڑیاں خان صاحب کے گلے میں پڑ گئیں تو خان ​​صاحب کا بچنا مشکل ہوجائے گا۔فیض حمید کی گرفتاری کے بعد چند ایسے سوال ذہن میں اٹھتے ہیں جن کا جواب ملنا ضروری ہے۔ کیا جنرل فیض حمید کی گرفتاری عمران خان کے لیے سخت پیغام تو نہیں؟ ریٹائرڈ جنرل فیض حمید کو کورٹ مارشل کے دوران سزا ملے گی یا یہ سزا بھی پرویز مشرف کی سزا کی طرح اڑ جائے گی اور 9 مئی کا سارا ملبہ تحریک انصاف پر ڈالا جائے گا؟ کیا تحریک انصاف اپنے محسن کیلئے سڑکوں پر نکل کے آئے گی؟ کیا فیض حمید کو خان صاحب کی قانونی ٹیم مدد فراہم کری گی یا انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے گا؟ کہیں فیض حمید سلطانی گواہ تو نہیں بنیں گے؟
اس وقت ملک میں ایک عجیب سا ماحول بنا ہوا ہے، عدالتی فیصلوں سے لے کر ہر قسم کی کاروائیوں کا بلواسطہ یا بلاواسطہ سیاست سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر عدالت کسی مقدمے کا فیصلا حق سچ اور انصاف پرسناتی ہے تو متاثر فریق کے تنقید کے نشتروں سے اپنے آپ کو بچا نہیں سکتی۔ جس فریق کو ایک فیصلے میں فائدہ پہنچے اور دوسرا فیصلا ان کے خلاف آئے تو وہ ہی فریق اس فیصلے کو سیاسی انتقام کے طور پر دیکھنا شروع کر دیتی۔ مخصوص نشستیں جب تحریک انصاف کو ملیں تو وہ خوش دکھائی دے رہے تھے ان کی نظر میں عدالتی فیصلہ انصاف پر مبنی تھا اور جب عدالت نے گوجرانوالہ اور لودھراں کی تین نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کی جیت کا فیصلا سنایا تو پی ٹی آئی نے عدالت پر تنقید کرنا شروع کر دی۔ سیاسی جماعتوں کے لیے عدالتی فیصلوں کو ماننا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ عدالتوں کا ہر سیاسی فیصلہ متنازعہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے چاہے وہ حکومت ہو یا پھر اپوزیشن جماعتیں۔ الیکشن کمیشن بھی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلوں کو ماننے سے گریزاں نظر آ رہی ہے۔ برحال عدالتی فیصلے تاریخ رقم کرتے ہیں۔ جن کا اثر دہائیوں تک رہتا ہے۔
اس وقت عدلیہ کے فیصلوں کو بھی متنازیہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے تو دوسری کاروائیوں کو کیسے بخش کیا جائے گا۔