قانون بنانا کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن قانون پر عمل کرنا سب سے بڑی بات ہے۔ فطرت بھی ایک مقرر کردہ قانون ہے جو اپنا بدلا کبھی نہیں چھوڑتا کیونکہ قانون میں رحم نہیں ہوتا بس عمل کرنا مقصود ہوتا ہے۔ انسان کا بنایا ہوا قانون کبھی کبہار ”عمل“ کرنے کے نقطے پر آ کر قانون بنانے والوں کے گلے میں پھندے کی صورت میں پڑ جاتا ہے۔ جمہوری نظام میں وقت کے ساتھ قوانین میں ترامیم ہوتے رہتے ہیں۔ مہذب جمہوری ممالک میں بیشتر ترامیم جمہور کی بھلائی کیلئے ہوتے ہیں۔ حکمران جب محسوس کرتا ہے کہ جمہوریت کی بہتری کے راستے میں کوئی قانون آ رکاوٹ ہے تو اسے اپنی عقل و دانش کے مطابق تبدیل کرتا ہے۔

ہم تیسری دنیا کی جمہوریت ہیں اس لیئے ہمارے سمج میں اکثر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی "سوچ” جمہور کے حقوق کے تحفظ سے زیادہ اپنی کرسی کو طول دینے کیلئے ہوتی ہے۔ 1973ع کے جامع آئین کے بعد 50 سال تک 26 ترامیم کی گئیں ہیں۔ اس دوران ملک نے 20 سال سے زائد کا وقت مارشل لا میں گذرا باقی حصہ بھی جمہوریت پلس آمریت میں گذر گیا۔جنرل ضیاء الحق اور پرویز مشرف جیسے آمر حکمرانوں نے بھی جمہور کی بھلائی کا سوچ کر آئین میں ترامیم کیں، جمہوریت کے دعویدار پارٹیوں پاکستان پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن مسلم لیگ ق پاکستان تحریک انصاف بھی آئین میں ترامیم کرنے والوں میں شامل ہیں۔بدقسمتی یہ رہی کہ جب بھی آئین میں ترامیم ہوئیں اس میں ڈنڈے اور پھندے کا عنصر شامل رہا ہے۔ جمہوریت پسند لوگ بھی آمریت کی سوچ کے ساتھ اپنے اہداف کی جانب بڑھتے ہیں۔ 26 ویں ترمیم میں بھی ایسا کچھ نظر آیا کہ ملک کے وسیع تر مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں نے انتھک کوششوں کے بعد حزب اختلاف کے کچھ لوگوں کو یقین دلایا کہ 26ویں ترمیم ملک و جمہوریت کیلئے ایک سنہرا باب ہے اس لیئے آپ کا۔ساتھ ضروری ہے۔ برحال آئین میں ترمیم ہوگئی وہ قانون بھی بن گیا نئے قانون کے مطابق نیا چیف جسٹس کا بھی اعلان ہوگیا۔

نئے قانون کے بعد پارلیامانی کمیٹی نے چیف جسٹس آف پاکستان کیلئے جسٹس یحیی’ آفریدی کا انتخاب کیا جو سنارٹی لسٹ میں جونیئر جج ہیں۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ کسی جونیئر کو کسی ادارے کا سربراہ بنایا گیا ہو اس سے پہلے بھی کئی لوگ ایسے فیصلوں سے مستفید ہو چکے ہیں۔ خداداد مملکت کی تاریخ یہ بھی رہی ہے جس شخص کو آگے لایا گیا اس نے ہی ان کا گلا دبایا ہے۔ کئی ایسے لوگ ہیں جنہیں جونیئرز پر فوقیت دی گئی۔
ہماری عدلیہ کی تاریخ بھی کوئی خاص نہیں رہی جس کو دہرا کر ہم فخر محسوس کریں۔ طاقتور حکمرانوں نے عدلیہ کو اپنے در کا دربان بنا رکھا تھا۔ عدلیہ کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ہم انصاف مہیا کرنے والے ممالک میں کس نمبر پر کھڑے ہیں؟ انصاف کی سست رفتاری کی وجہ سے سالوں بیت جاتے ہیں لیکن شنوائی تک نہیں ہوتی حتی’ کہ انصاف کے متلاشی شہر خموشاں کی باسی بن جاتے ہیں۔
ہمارے نظام میں کئی نقص ہیں۔ ہر ادارے میں اناء کی جنگ چل رہی ہے ہر ادارے کے لوگ اپنے آپ کو خلائی مخلوق سمجھتے ہیں کوئی بھی اپنے آپ کو کمتر, ریاست و جمہور کا خدمتگار نہیں سمجھتا جس کی وجہ سے طاقت کا توازن بگڑا ہوا ہے۔

26ویں آئینی ترمیم میں سب سے زیادہ شور اس بات پہ ہوا کہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کو نیا چیف جسٹس بننے سے روکنا ہے۔ اب جسٹس منصور علی شاہ میں ایسا ہے کہ حکومت اور اس کے اتحادی ان سے ڈر رہے ہیں؟ میری نظر میں ڈر دو قسم کا ہے ۔ ایک جب کوئی غلط کام ہو تو انسان کو ڈر رہتا ہے کہ اگر وہ غلطی پکڑی گئی تو اس کی سزا بگھتنی پڑے گی۔ دوسرا یہ کہ اگر یہ آگیا تو یہ مجھے نہیں چھوڑے گا؟ اب موجودہ حکمرانوں کو ایسا کا ڈر تھا کہ منصور علی شاہ کے چیف جسٹس بننے سے پہلے ہی آئین میں ترامیم کر کے ایک جونیئر جج کو بڑا منصب سونپا گیا؟ آخر منصور علی شاہ کا راستا کیوں روکا گیا؟ کیا منصور علی شاہ کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے جو حکومت کیلئے ذاتی پسند ناپسند کو اہمیت دیتے ہیں ؟ کیا منصور علی شاہ کہیں پی پی پی اور ن۔ لیگ کیلئے جسٹس افتخار چودھری ، ثاقب نثار، عمر عطا بندیال تو نہیں بنتے۔؟ نواز شریف نے عدلیہ سے شکوہ کا شعر بھی پڑھا تھا شاید اس لیئے ن لیگ ڈر رہی تھی کہ کہیں منصور علی شاہ ان کیلئے درد سر نہ بن جائیں؟

برحال جو ہونا تھا وہ ہو گیا اب کچھ وقت کیلئے کھیل پارلیامنٹ ہاٶس سے نکل کر روڈوں کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ تحریک انصاف اور اس کے حمایتی وکلاء روڈوں پر ہونگے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف 26ویں ترمیم پر کس طرح سیاست کرتی ہے؟ بظاہر تحریک انصاف میں وہ طاقت نظر نہیں آتی جس کی امید کی جارہی ہے۔ عملی میدان میں تحریک انصاف قیادت کے فقدان کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے دیکھنا یہ ہے کہ بیریسٹر گوہر پارٹی کو اکٹھا کرپاتے ہیں یا نہیں؟ 26ویں آئینی ترمیم کے عوام کو کون کون سے ثمرات ملینگے یہ تو وقت ثابت کریگا۔ حکومت پرسکون ہے۔ لگتا تو اس طرح ہے کہ یہ آئینی ترامیم بھی میثاق جمہوریت کی کڑی ہیں اس کے اثرات بلاول بھٹو زرداری کی سیاست پر بھی پڑینگ