ڈاکو کون ہیں؟ لوگ ڈاکو کیوں بنتے ہیں؟ ڈاکو کون پیدا کرتا ہے ؟ ڈاکوٶں کی پرورش کون کس طرح کرتا ہے؟ آج اور کل کے ڈاکو میں کیا فرق ہے؟ ڈاکو راج عروج پر کیوں ہے؟ کچے میں پکا آپریشن کیوں نہیں ہوتا؟ ڈاکوٶں کے خلاف آپریشن میں ہمیشہ پولیس اہلکار کیوں شہید ہوتے ہیں؟ ڈاکوٶں کے پاس جدید ہتھیار کہاں سے آتے ہیں؟ ڈاکو راج کا خاتمہ کس طرح ممکن ہو سکے گا ؟ پولیس جب مغوی بازیاب کراتی ہے تو ڈاکو گرفتار کیوں نہیں ہوتے؟
یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب ہر عام شہری جاننا چاہتا ہے۔ میں بھی کوشش کرتا ہوں کہ ان سوالات کے جواب آپ کے سامنے پیش کر سکوں کیونکہ میرا تعلق ڈاکوٶں کے گڑھ سے ہے۔ ہم ڈاکوٶں کے رحم و کرم پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔

کچے کا نام سنتے ہیں جدید ہتھیاروں سے لیس لوگوں کا عکس ذہن میں گھومنے لگ جاتا ہے ایسا لگتا ہے کہ کچے کہ لوگوں نے جدید ہتھیاروں کی فیکٹریاں ماہر تیکنیکی افراد کی نگرانی میں گیہل پور کچہ درانی مہر کچہ رائونتی کچہ کھوٹکی کچہ گڑھی تیغو خان پور کچہ یا پھر سکھر کچہ میں بنائی ہوئی ہیں۔ ڈاکوٶں کے پاس جو جدید ہتھیار ہیں ان میں اینٹی ایئرکرافٹ مشین آٹومیٹک مشین گن بم راکٹ لانچر جی تھری کلاشن کوف رائیفل بندوقیں پسٹل ہر قسم کی گولیاں اور دیگر چھوٹے بڑے ہتھیار وافر مقدار میں موجود ہیں۔ فیکٹریوں کی بات میں نے اس لیئے کی کہ کچے کے چاروں اطراف پولیس اور رینجرز کی چوکیاں موجود ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ان چوکیوں اور سخت سکیورٹی کے ہوتے ہوئے ایسے ہتھیاروں کا کچے میں پہنچنا بڑا مشکل کام ہے ۔اگر آپ کو ایسا نہیں لگتا تو وہ آپ کی مرضی کیونکہ کبھی کبہار میرا دماغ کام نہیں کرتا۔
چلیں ہتھیاروں کی فیکٹریاں ہیں یا نہیں یہ الگ بات ہے لیکن یہ جدید ہتھیار کچے میں موجود ہیں یہ تو سچ بات ہے جس سے انکار نہیں کیا جاتا سکتا۔

اس وقت سات اضلاع ایسے ہیں جن میں جانا خطرے سے خالی نہیں ان میں پنجاب کے راجن پور رحیم یار خان سندھ کے کشمور گھوٹکی شکارپور سکھر اور جیکب آباد شامل ہیں۔ راجن پور رحیم یار کے کچے سے لیکر سکر کے دونوں طرف کے کچے کا فاصلا تقریباً 150 سے 200 کلومیٹر ہے۔ ان اضلاع میں سندھ پنجاب پولیس کا آپریشن سالوں سے چل رہا ہے لیکن مٹھی بھر ڈاکوٶں کا خاتمہ ممکن نہ ہو سکا۔
ان اضلاع کے روڈ راستے گلے کوچے حتیٰ کہ شہر محلے اور گھر بھی ڈاکوٶں کی وارداتوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ جب سورج سوا نیزہ کھڑا ہوتا ہے تب روڈ راستے اور بازاریں ویران ہونا شروع ہوجاتی ہیں جو جہاں ہوتا ہے وہ وہیں رک جاتا ہے۔ زندگی تھم سی جاتی ہے۔ خوف کی خاموشی کا رقص شروع ہوجاتا ہے۔ ڈر کا سناٹا چھا جاتا ہے۔ لوگ گھروں کو لوٹنے کی جلدی کرتے ہیں۔ گھر والے اپنے پیاروں کی صحیح سلامت لوٹنے کی آس لگا کر دروازے کی طرف دیکھتے ہیں۔

ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس لیئے ہے کہ ان علاقوں کا رہن سہن ثقافت ریتی رواج دوسروں سے الگ ہیں۔ ان معاشروں میں خونی ٫ قاتل چور یا ڈاکو کو ”بہادر اور مڑس ماڑنھو“ سمجھا جاتا ہے۔ قانون کی کمزوری٫ قبائلی تنازعات٫ تعلیم کی کمی٫ شعور کی شمعہ کا روشن نہ ہونا٫ انا پرستی کے ساتھ اور بھی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے لوگ ڈاکو بنتے ہیں۔ تاریخ میں دیکھا جائے تو ڈاکو سماج کا ایک باغی کردار رہا ہے جو لوگ ظلم برداشت کر کر کے انصاف نہ ملنے کی صورت میں اپنا انصاف خود کرنے کیلئے ہاتھوں میں ہتھیار اٹھا لیتا تھا۔ کل کا ڈاکو ہمیشہ اپنے دشمن یا کسی سیٹھ کو لوٹتا تھا۔
عورتوں اور بچوں کی عزت کرتا تھا۔ مجبور کمزور اور لاچاروں کیلئے کسی مسیحا سے کم نہیں تھا لیکن آج کا ڈاکو لوٹنے کیلئے عورتوں اور بچوں کو نہیں چھوڑتا اغوا کرنے کیلئے معصوم بچوں تک کو نہیں چھوڑ رہا۔ روڈ پر نکلنے کے بعد یہ نہیں دیکھتا کہ لٹنے والا یا مرنے والا کون ہے؟ آج کے ڈاکو کی بربریت و سفاقیت سے کوئی محفوظ نہیں۔ کل کا ڈاکو تاوان کیلئے لوگ اغوا کرتا تھا آج کا ڈاکو تاوان بھی لیتا ہے اور مغویوں کی عزتیں بھی پامال کر کے کہ ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کرتا ہے۔

قانون کی کمزوری ڈاکوٶں کی پشت پناہی کرنے والے لوگوں کا سیاست اور پولیس میں ہونے کی وجہ سے ڈاکو راج میں دن بدن اضافہ ہو رہا۔ اگر پولیس ان کو گرفتار کرتی ہے تو مصلحت کے بنیاد پر ان کو باعزت چھوڑا بھی جاتا ہے۔ پولیس کی وردی میں چھپی کالی بھیڑیں ان کی مکمل پشت پناہی کرتی ہیں۔ سیاستدان سیاسی مفادات اور ذات برادری کی وجہ سے ڈاکوٶں کی مدد کرتے ہیں۔ اس لیئے ڈاکو راج عروج پر ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ڈاکو راج کا خاتمہ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے؟ ڈاکو راج کا خاتمہ کرنے میں کوئی عربی فارسی نہیں ہے بس ان عناصر کا خاتمہ کیا جائے جو ان کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ قبائلی جھگڑے ختم کرائے جائیں ان ساتوں اضلاع میں قبائلی جھگڑوں میں اب تک ہزاروں افراد قتل ہو چکے ہیں قتل ہونے والوں میں معصوم بچے عورتیں بوڑھے اور جوان شامل ہیں نہ صرف یہ بلکہ مشہور تعلیمدان ٫ ڈاکٹرز وکلا اور طلبہ بھی شامل ہیں۔ یہ قبائلی جھگڑے سالہا سال سے چل رہیں ہیں۔
قبائلی جھگڑوں کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ ذرخیز زمین بنجر بن چکی ہے۔ جب قبائلی جھگڑے ختم نہیں ہونگے تب تک ڈاکو راج ختم نہیں ہوگا۔ پولیس کی ناجائزیاں بھی عام لوگوں کو ڈاکو بنانے میں کسر نہیں چھوڑتی۔ غیرقانونی اور فرمائشی مقدموں کی بھرمار بھی لوگوں کو ڈاکو بناتی ہیں۔ جب لوگ شہروں میں کاروبار نہیں کرینگے زمینیں بنجر ہونگی تو ایسی صورت میں لوگ جرائم کا راستہ اختیار کرینگے۔

پولیس کی صفوں میں کچھ کالی بھیڑیں ہیں جو انفرادی فائدہ حاصل کرنے کیلئے محکمے کے ساتھ غداری کرتے ہیں۔ پولیس جب کچے میں آپریشن کرنے جاتی ہے تو ڈاکوٶں اطلاع پہلے مل جاتی ہے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جوان اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ پولیس کے پاس وہ جدید بھاری اسلحہ نہیں جو ڈاکوٶں کے پاس ہے اس لیئے بھی اہلکار شہید ہو جاتے ہیں۔

پولیس کسی ہائی پروفائیل مغویوں کی بازیابی کیلئے ڈاکوٶں کے قریبی رشتہ داروں کو گرفتار کرتی ہے پھر ان سے ڈیل کر کے مغوی بازیاب کراتی ہے ورنہ اکثر کرکے مغویوں کے ورثہ بھاری رقم بطور تاوان ادا کرنے کے بعد اپنے پیاروں کو بازیاب کرا لیتے ہیں پولیس کا کردار صرف فوٹو سیشن اور نوٹوں کے ہار پہننے تک محدود ہوتا ہے۔

کچہ ڈاکوٶں کی آماجگاہ نہیں ہے کچہ زمین کا حسن ہے کچے پکے کے لوگوں کو ہر قسم کی سہولت میسر کرتا ہے کچے سے لکڑی ملتی ہے کچے میں فصل اگائے جاتے ہیں کچہ فطری خوبصورتی کا بہترین نمونہ ہے۔ خالص شہد لذیذ مچھلی خالص دودھ مکھن کچے سے پکے کی طرف آتا ہے۔ کچے کے لوگ روایات کے امین ہیں مہمان نوازی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ چند لوگوں کی وجہ سے پورے کچے کو بدنام کرنا انصاف نہیں بس جرائم پیشہ افراد کے خلاف پکا آپریشن کیا جائے یا ڈاکوٶں کو عام معافی دی جائے ان کے قبائلی جھگڑے ختم کرائے جائیں جیسے بھٹکے ہوئے ڈاکو راہ راست پر آ جائیں۔