پاکستان کی سیاست میں موروثیت کا بڑا عمل دخل ہے۔ موروثیت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک کاٶنسلر سے لیکر ایم این اے اور ایم پی اے تک موروثیت کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔ جتنی بھی بڑی اقتداری جماعتیں ہیں ان میں موروثیت کا عنصر نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ خاص طور پر پی پی پی نواز لیگ۔ اے این پی جمیعت علماء اسلام وغیرہ۔ پی پی پی کی سیاست بھٹو کے نام پر چل رہی ہے تو ن لیگ کے پاس شریف فیملی موجود ہیں۔

پی پی پی کی مورثیت ذوالفقار علی بھٹو سے شروع ہو کر نصرت بھٹو، محترمہ بینظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور بلاول زرادری پر پہنچ چکی لیکن آصف علی زرداری نے بیٹے کے نام کے ساتھ ایک بار دوبارہ بھٹو شامل کر کے نام کی مورثیت کو آگے بڑھایا اور پارٹی کی کمان خاندان سے باہر جانے نہیں دی۔ جب اقتدار ملنے کی باری آئی تو زرداری صاحب خود طاقتور صدر بن گئے (یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تو بنایا گیا لیکن فیصلوں کا اختیار آصف علی زرداری کے پاس تھا۔ اس وقت اگر بلاول بھٹو زرداری کی عمر بڑی ہوتی تو یقیناً وہ ہی وزیراعظم بنتے )۔ یہ الگ بات ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو جب حیات تھیں تو آصف علی زرداری کی ظاہری طور پر پارٹی میں کوئی حیثیت نہیں تھی۔ ان کی نسبت مخدوم امین فہیم خورشید احمد شاہ صفدر عباسی قائم علی شاہ مخدوم صالح حیات آفتاب شیرپاٶ وغیرہ کے پاس فیصلے کرنے کا اختیار قدر زیادہ تھا۔

لیکن جب پارٹی کی کمان زرداری صاحب کے پاس آئی تو پی پی پی میں کچھ ٹوٹ ہوئی۔ سینئر قیادت نالاں رہی۔ رہنماٶں کی شکایات کچھ بڑھنے لگیں جس کی وجہ سے کچھ لوگ پارٹی چھوڑ کر چلے گئے کچھ لوگوں نے خاموشی کو بہتر فیصلا سمجھا اس دوران ”لوٹا“ معافیہ سرگرم ہو گیا اور پی پی پی نے نظریاتی و مزاحمتی سیاست چھوڑ کر اقتداری سیاست کو ترجیح دی نتیجہ یہ نکلا کہ اب پی پی پی عوامی پارٹی کم جاگیردارانہ پارٹی زیادہ لگ رہی ہے جس میں ورکر کی جگہ ووٹ لانے والوں نے لے لی(وہ ووٹ جس انداز سے بھی حاصل ہوں) پی پی پی کا حشر بھی تحریک انصاف جیسا ہوتا اگر ان کو محترمہ کی شہادت کے بعد حکومت نہیں ملتی۔ سندہ میں پی پی پی کو چوتھی بار ملنے والے اقتدار نے بھی کچھ سہارا دیا ہوا ہے ورنہ پارٹی کا کیا ہوتا یہ فیصلہ وقت ہی کرتا۔ جب سے پی پی پی میں ورکرز کے بجائے طاقتور لوگوں کو اہمیت دی گئی تب سے پارٹی ڈرائینگ رومز تک محدود ہو گئی ہے۔

زمینی حقائق یہ بھی ہیں کہ ورکرز کو کسی بھی پارٹی میں وہ مقام حاصل نہیں ہے جس کے وہ حقدار ہیں۔
اس کے علاوہ اگر دیکھا جائے تو ن لیگ کی سیاست کے طاقت کا مرکز نواز شریف ہی رہا ہے۔ 1999,1996.2013 میں ن لیگ کے پاس میاں محمد شریف کے علاوہ کوئی وزیر اعظم کا امیدوار نظر نہیں آیا اور اسی دوران پنجاب جیسے بڑے صوبے میں نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو وزیر اعليٰ بنایا گیا۔ جب نواز شریف کی دال نہیں گلی تو شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے اور ان کے چشم و چراغ حمزہ شہباز کے حصے میں تخت لاہور آ گیا۔ اب جب ایک دفعہ دوبارا نواز شریف کی دال نہیں گلی تو مستند کو گھر سے باہر جانے نہیں دیا گیا۔ بھائی وزیر اعظم اور بیٹی مریم نواز وزیر اعليٰ پنجاب بن گئیں ہیں۔ دیکھا جائے کہ پنجاب میں مریم نواز سے کہیں زیادہ سیاسی شعور رکھنے والے لوگ موجود ہیں لیکن پھر بھی ن لیگ نے مریم نواز کو ہی ورزیر اعليٰ کا منصب محض اس لیئے دیا کی ہو نواز شریف کی بیٹی ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مریم نواز نے جیل کی سختیاں برداشت کیں۔ عدالتوں کے چکر کاٹے بڑے بڑے جلسے کیئے حاضر سروس جرنیلز کو للکارتی رہیں۔ صرف مریم نواز نہیں اور بھی رہنما ہیں جنہوں نے ن لیگ کی سیاست بچا کہ رکھی۔

برحال مورثیت کا سیاست میں بڑا حصہ ہے. سیاسی شعور رکھنے والا ہر شخص عمران خان کے 24 نومبر کے فائنل راٶنڈ پر گفتگو کر رہا ہے۔ ہر کوئی اپنا نظقہ نظر پیش کرنے میں مصروف ہے ہر کسی کی آراء کو میں عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں لیکن کچھ ایسے بھی حقائق ہیں جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا وہ ہے سیاسی مورثیت۔ اس وقت تحریک انصاف میں اگر کسی چیز کا فقدان ہے تو وہ ہے لیڈر کے کسی رشتیدار کا متحرک نہ ہونا۔

تحریک انصاف کے بانی کے بیٹے برطانیہ میں ہیں جن کا پاکستان کی سیاست میں کوئی کردار نہیں ۔ خان صاحب کو جیل میں سال سے زائد کا وقت گذر چکا ہے لیکن بیٹے ان سے ملنے تک نہیں آئے۔ بہنیں تو ہیں لیکن ان کو سائیڈ لائین پر لگایا گیا تھا۔ بیوی تھی تو وہ بھی جیل میں تھیں۔ کہتے ہیں جو تکلیف اپنوں کو ہوتی ہے وہ تکلیف دوسرا محسوس نہیں کر سکتا خان صاحب کے ساتھ بھی وہی چل رہا ہے۔ علیمہ خان کا مایوس کن بیان بھی مجھے یاد ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ موجودہ قیادت کی ترجیحات میں خان صاحب کی رہائی شامل نہیں۔ جب ذوالفقار علی بھٹو جیل میں تھے تو بیگم نصرت بھٹو ایک بیوی کی حیثیت سے پارٹی کو بھی لیڈ کر رہی تھیں اور اپنے شوہر ک کیس بھی لڑ رہی تھیں۔(یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنے شوہر کی زندگی نہ بچا سکیں)۔ میاں نواز شریف پر جب وقت آیا تو بیگم کلثوم نواز نے ن لیگ کی قیادت کی بلکہ ن لیگ کو حالات کے طوفانوں سے بچا کر بھی رکھا۔

محترمہ بینظیر اور مریم نواز نے اپنی اپنی پارٹی کیلئے کیا کیا اس کا بھی سب کو علم ہے۔ لیکن اس وقت علیمہ خان کی تحریک انصاف میں وہ حیثیت نہیں جو محترمہ بینظیر بھٹو یا مریم نواز کی تھی نہ ہی وہ بیگم نصرت بھٹو بن سکی ہیں اور نہ ہی ہارٹی میں بیگم کلثوم نواز جتنا حتیٰ کہ فریال ٹالپر جتنا بھی مقام حاصل نہ کر سکیں ہیں۔ ایک بیوی کے روپ میں بشری بیبی خان صاحب کے دور حکومت میں پردے کے پیچھے بڑی متحرک تھیں لیکن اب وہ کہاں کھڑی ہیں اس کا بھی سب کو پتا ہے۔ ذرائع یہ بتا رہی ہیں کہ بشری بیبی نے پردے کے پیچھے بیٹھ کر ہر ایم این اے اور ایم پی اے کو پانچ دس ہزار لوگ لانے کا ٹاسک دیا گیا ہے اگر اتنے لوگ نہیں لائے گئے تو پارٹی کو ان کی ضرورت نہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ بشری بیبی کے حکم پر کس طرح عمل ہوتا ہے۔ لیکن اب تک مروثیت کی کمی کی وجہ سے تحریک انصاف بکھری ہوئی نظر آتی ہے۔