کہتے ہیں وقت پوچھ کر نہیں آتا۔ ہنستے بستے گھر میں، اچانک سے پریشانی کا ماحول بن گیا پریشانی کیوں نہ ہوتی گھر کا ولی جو شدید علیل ہوگیا۔ عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے ابا جان کی طبیعت اچانک سے خراب ہوگئی پتا چلا کہ دل ناتواں قابو میں نہیں رہا۔ جلدی جلدی بھاگتے ہو ہسپتال پہنچے تو کہا گیا کہ ہم سے یہ دل بہلایا نہیں جائے گا اس لیئے انہیں ہم سے لے جائیں۔

بھلا ہو 1122 کی ایمبولنس کا جس نے ہماری مشکلات میں کچھ کمی کی بغیر کسی خرچ کے بڑے شہر کے مشہور سرکاری ہسپتال(میڈیکل کالج) کے ایمرجنسی وارڈ میں آ پہنچے۔ ایمرجنسی کی وجہ سے جلدی میں علاج تو شروع ہو گیا لیکن داخلا کی رسید لینے کیلئے لمبی قطار میں کھڑا ہونا پڑا۔ ایک منٹ دو منٹ آدھا گھنٹا اسی طرح پورا گھنٹا گذر گیا لیکن میری باری نہیں آئی کہ میں مریض کا داخلہ لینے میں کامیاب ہو جاتا میری ناکامی کی وجہ میریضوں کے مددگاروں کی لمبی قطار نہیں بلکہ سائیڈ سے جانے والے وہ افراد تھے جو کسی نہ کسی کے ”آدمی“ تھے۔ آخر تنگ ہو کر میں نے پرچی کلرک سے کہا کہ بھائی ہم بھی کافی وقت سے کھڑے ہیں, ہمارے پاٶں کا پانی بھی خشک ہوگیا ہے ہماری ہمت اب جواب دینے لگی ہے اگر کرم نوازی ہو تو ہماری سلپ بنانے کی عنائت کریں تو عین نوازش ہوگی۔

کلرک صاحب نے اکڑ کر کہا ارے بھائی دیکھ نہیں رہے کہ میں کام کر رہا ہوں میں کوئی فارغ تو نہیں بیٹھا۔ میں نے عرض کیا جناب آپ بالکل ہی فارغ نہیں ہیں لیکن آپ ان کا کام کرنے میں مصروف ہیں جو اوپر نیچے یا دائیں بائیں کے راستوں سے نکل کر آ رہے ہیں ہم جو سیدھے راستے سے آ رہے ہیں ہمارا حق پہلے بنتا ہے تو موصول نے آگے سے لہجا تلخ کرتے ہوئے کہا سلپ لینی ہے تو چپ کریں ورنہ جہاں سے آئے ہیں وہاں جائیں یہاں ایسے ہی چلتا ہے ۔ میرے پیچھے کھڑے کسی مریض کی مددگار نے کہاں بھائی جانے دیں ” یہ پاکستان ہے یہاں ایسا ہی چلتا ہے“۔ تھوڑی دیر کیلئے میں بھی خاموش ہو گیا برحال اللہ اللہ کرتے سلپ مل گئی۔ ابا جان کا علاج شروع ہو گیا۔ لیکن ایک بات میرے کانوں میں گونج رہی تھی کہ” یہ پاکستان ہے یہاں ایسا ہی چلتا ہے“۔ آخر کیوں ایسا جو کہیں اور نہیں چل سکتا وہ پاکستان میں چل جاتا ہے؟

ہر غیر واجبی کیوں برداشت کی جاتی ہے؟ ہم سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی خاموش کیوں ہو جاتے ہیں؟ ایسا کرنے والوں کو کیوں نہیں روکا جاتا ؟ ایسے لوگوں کے پیچھے کون ہے؟

برحال دیکھا جائے تو یہ حقیقت بھی ہے یہاں سب کچھ چل جاتا ہے۔ سب کچھ چلانے والے کھوٹہ سکا بھی سونا بنا کر چلا لیتے ہیں یہ نظام اب سے نہیں پتا نہیں کب سے چل رہا ہے۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا عقل و فہم کی دہلیز پر قدم رکھا تب سے ایسا ہی چل رہا ہے۔ ایک چھوٹے سے دفتر میں جائیں تو وہاں پر ایک چپڑاسی سے لیکر اس دفتر کے افسر تک سب ایسا ہی چلانے میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر کوئی ”ایسا ہی چلتا“ کے ساتھ نہیں چلتا وہ وہیں پر ہی رک جاتا ہے ایک چھوٹے سے دفتر کا یہ حال ہے جہاں کا راجا ” ایسا ہی چلتا“ کے آگے قانون٫ اخلاقیات اور حق سچ سب کو ایک کونے میں بٹھا کر خود فرشی سلام لگا کر حکم ادولی کرتا ہے۔ دفتر کو تو چھوڑیں اقتدار بالا منظر بھی کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے ایوب خان سے لیکر پتا نہیں کب تک (اگر آپ چاہیں تو وقت کا تعین خود بھی کر سکتے ہیں لیکن بقول حزب اختلاف بشمول تحریک انصاف موجودہ حکومت کو بھی ایسا ہی چلتا کے زاویے سے دیکھ رہے ہیں) یہ سلسلہ اقتداری سیاست میں بھی نظر آتا ہے۔ جب بھی فرشتوں نے انتخابات کے دنوں میں کسی پارٹی کے حق میں نزول شروع کیا وہ پارٹی با آسانی جیت جاتی ہے چاہے اسے عوام نے ووٹ دیئے ہو یا نہ دیئے ہوں۔ فرشتوں کی سب سے بڑی خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ نہ صرف ان کی برکت سے وہ پارٹی انتخاب چیت کر اقتدار کے مستند پر بیٹھتی ہے بلکہ اس کرسی کی حفاظت بھی ان کی فرض شناسی میں شامل ہوتی ہے۔ اس دوران اگر مستند بالا پر بیٹھا شخص ہر حکم کی پاسداری کرنے سے معزرت کرے یا قاصر رہے تو وہ گناہ کبیرا کے زمرے میں آتا ہے اور اس کی پکڑ بھی بڑی خطرناک ہوتی ہے( میں سمجھتا ہوں سب نے اس پکڑ کا مزا چکھا ہے)۔

بات چل رہی تھی ایمرجنسی وارڈ کی تو اس وقت ملک کے حالت کو دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا کہ پورا ملک ایمرجنسی وارڈ بن گیا ہے۔ سندہ میں ڈاکو راج بلوچستان اور کے پی کے میں ہونے والی دہشتگردی کی وجہ سے”امن و امان “ ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوچکا ہے۔ اسلام آباد کی فضائیں بھی سیاست کیلئے مضر صحت بن چکی ہیں ہر طرف ایک غیر یقینی والی صورتحال بنی ہوئی ہے انٹرنیٹ کی بندش اور انٹرنیٹ نے کافی ابہام پیدا کر دیا ہے حقیقت کا پتا ہی نہیں چل رہا کہ کیا ہو رہا ہے۔ رہنما اور ان کے بچے محفوظ ہیں غریب کا بچہ آج بھی طاقت کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہے کیونکہ یہ ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے قربانی ایک دیتا ہے پھل اور کھاتے ہیں سیاسی میدان میں بھی ”ایسا ہی چلتا ہے“ والا فارمولا لاگو ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ن لیگ کی سیاست کا اونٹھ تحریک انصاف کی طاقت کے آگے بیٹھ کر ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوتا ہے یا حکومت بشمول محسن نقوی خان صاحب کی احتجاج کی فائنل کال کو روند کر ایمرجنسی وارڈ میں داخل کرتے ہیں۔

برحال ہمیں ”ایسا ہی چلتا ہے“ سے نکل کر ملک و جمہور کی فلاح و بہبود کیلئے سوچنا ہوگا اور ایمرجنسی وارڈ کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنا ہوگا اگر ایسا نہیں کیا تو ایمرجنسی وارڈ میں ”ایسا ہی نہیں چلتا بلکہ کچھ بھی ہوسکتا ہے“
اللہ کے فضل کرم سے میرے ابا جان ایمرجنسی وارڈ سے ڈاکٹروں کی کاوش صحتیاب ہوکر گھر آ گئے ہیں