اسلام آباد(محمداکرم عابد ۔دامن مارگلہ سے )سرکار بنابھی سکتا ہے سرکاربدل بھی سکتا سے متعلق کرشماتی شخصیت کا پارلیمانی غلام گردشوں میں تذکرے جاری ہیں لیکن حالیہ سیاسی قربانیوں پس پشت ڈالنے کے خدشات بھی اُٹھائے جارہے ہیں آنکھوں سے یہ معاملہ اوجھل نہ ہونے دینا یہ کہنا ہے سب جمہوریت پسندوں کا ۔ ملک میں مجموعی اصول پرستوں کے یوٹرن لینے کا موسم ہے احوال یہ ہے کہ مذاکرات کے معاملے پر بدلتے پینتروں پر کسی نے تبصرہ کیا ہے کہ کپتان کو اپنے کھلاڑی آؤٹ کرنے پر تُل گئے اور مخالف ٹیم کا بھیس بدل کراپنا ہی گگلی پھینک سکتا ہے ۔رکُیے ادراک تو ہوگا پارلیمانی کاروائیوں میں اہم تاریخی موادکا ریکارڈ مرتب ہورہا ہے ۔مورخ بے رحم ہوتا ہے اگر اس کافہم ہے تو اپنوں کو نیچے دکھانے والے سیاسی نقصان سے یقیناً آگاہی رکھتے ہونگے اور بے اختیار حکومت سے بات چیت نہ کرنے کے بیانیہ کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں اسی لئے تو تیزی سے مقبولیت کے ٹاپ ٹرینڈ بدل رہے ۔ جب کہ پارلیمانی ریکارڈ کے لئے بھی موادبھی ملا ہے کہ قانون سازی کے معاملے پرایک جماعت کے ساتھ جو ہاتھ ہوا یہ نئی بات نہیں کہا گیا ہے کہ سابق وزیراعظم مسلم لیگ (ن) کے قائدنوازشریف پر وعدوں کی پاسداری نہ کرنے کی روایت رکھتے ہیں یہ براہ راست الزام سربراہ عوامی نیشنل پارٹی سینیٹر ایمل ولی خان کی جانب سے لگایا گیا ہے کہ نوازشریف نے ان کے والداسفندیار ولی خان سے صوبے کے پختونخوا نام اور پاک چین اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کے لئے بلترتیب پہلی اور دوسری دونوں حکومتوں میں کئے گئے وعدوں کی پاسداری نہیں کی اس حوالے سے انھوں نے جے یو آئی کی قیادت سے سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ میں مدارس سے متعلق ترامیم کے معاملے پر حکومت بالخصوص بڑی حکمران جماعت کی جانب سے مبینہ طورپر وعدہ ایفا نہ کرنے کے تناظر میں کی ہے اور تاحال اس ایم خان کے لیگی قیادت پر وعدوں کی خلاف ورزیوں کے سنگین الزامات کی کوئی وضاحت اور تردید بھی سامنے نہیں آئی یقنیاً دال میں کچھ توکالاہے ۔دوسری طرف حکومت سے مذکرات سے متعلق کپتان کے لئے اپنی ہی پارٹی قیادت کی گگلی سے کئی معاملات سے پردہ اٹھتا نظر آرہا ہے ، یقینی خائف اس سے ہیں کہ اسی کا جادو اب بھی کیوں سرچڑھ کربول رہا ہے یعنی بانی اب بیانیہ کا پوسٹمارٹم ضروری ہے ۔ ناقدین کے مطابق اپنا ہی کوئی بااعتماد کھلاڑی کپتان کے بڑی حکومتی جماعتوں کی قیادت سے متعلق دیرنیہ موقف میں دراڑ کا سبب بن سکتا ہے۔ کیونکہ پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں انتہائی عاجزی سے مذاکرات کی درخواستیں کی جارہی ہیں جس پر پی ٹی آئی رہنماؤں کو یہ طعنے سننے کو مل رہے ہیں کہ کہا گیا تھا کہ چوروں ڈاکوؤں سے بات نہیں ہوگی اب کیا بیانیہ کی اصلاح احوال ہوگی ہے یہ پس پردہ کوئی اور کہانی جلد منظر صاف ہونے والا ہے ۔ یہ ضرورطے کرلیا گیا ہے اب پارلیمان ترجیح ہے۔ سہولت کاری کا راستہ پارلیمانی راہداریوں میں تلاش کیا جارہا ہے ناقدین کہتے ہیں پہلے اگر یہی خیال آجاتا تو پی ٹی آئی والوں کی مشکلات کا اتنا بوجھ نہ ہوتا ۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اپنوں اور بیگانوں کی سازشوں کا خدشہ نہ ہوتو وہ سرکاربنابھی سکتا ہے سرکاربدل بھی سکتا ہے کی غیرمعمولی صلاحیت کو بروئے کار لاسکتا تھا پوچھا گیا ایسی کون سے کرشماتی شخصیت ہے کہا گیا یہی تو ملین ڈالرسوال ہے ۔تجزیوں کی یہ پتنگیں بھی اڑائی جارہی ہیں کسی متبادل کی بھی ساتھ تلاش ہے مگر کیا کریں جادو ہے جو سر سے اتر ہی نہیں رہا اسی لئے تو بعض کا کہنا ہے کہ اگر کسی موقع پر سیاسی جماعتیں بندگلی کا شکار ہوئیں اس بار تو حقیقی شہسواری کے دعویدار اندھیروں میں تیر چلا رہے ہیں ۔ محلاتی سازشوں کی بازگشت غلام گردشوں میں سنائی تو دے رہی ہے مگر ممکنہ کردار کے حامیوں کوسوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا کے اس دور میں جلد سب کچھ افشاں ہونے کا بھی خدشہ ہے جوکسی بھی آزمائش سے دوچار کرسکتا ہے کچھ ناقدین کا یہ بھی خیال ہے کہ بیچ چوراہے ہنڈیا پھوٹنے کا دورلدھ گیا۔سب وڈے چھوٹے ابن الوقت موقع پرستی کی مرغوب غزا کے عادی ہیں اور جو سر اٹھاتا ہے وہ انا پرستی کے باعث کبھی کبھی فائدے کے اجتماعی مفاد سے بھی محروم ہوکر اپنی مشکلات کو بڑھاتا جاتا ہے ۔ جہوری حلقوں کو تو نشانہ بننے والے کارکنوں کے حوالے سے اظہار تشویش ہے جو کئی سہانے خوابوں کی تعبیر کے لئے اپنی پارٹی کے لئے سب کچھ نچھاور کرنے کا عزم لئے آتے کیا ریاست سے کسی بیٹھک کسی مکالمہ یا مذاکَرات میں ان کی بھی کوئی بات ہوگی سڑکوں پر بہنے والے اس خون کے لئے انصاف ترجیح ہوگا یاسیاسی مقاصد اور انصاف یوں ہی قتل ہوتا رہے گا سیاسی مقاصد کی آنچ میں یونہی کارکنان بھینٹ چڑھتے رہیں گے ۔ اور اقتدار کا اسی طرح میوزیکل چئیرکی طرح کھیل جارہی رہے بس کچھ انتظارکریں سب کو بے نقاب ہوگا ۔ساحر لدھیانوی کی یہ درج ذیل انقلابی نظم کے پیغام منظر کو ضرور یاد رکھیں۔
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
خاک صحرا پہ جمے یا کف قاتل پہ جمے
فرق انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے
تیغ بیداد پہ یا لاشہ بسمل پہ جمے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں
خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ
سازشیں لاکھ اڑاتی رہیں ظلمت کی نقاب
لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ
ظلم کی قسمت ناکارہ و رسوا سے کہو
جبر کی حکمت پرکار کے ایما سے کہو
محمل مجلس اقوام کی لیلیٰ سے کہو
خون دیوانہ ہے دامن پہ لپک سکتا ہے
شعلہ تند ہے خرمن پہ لپک سکتا ہے
تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے
کہیں شعلہ کہیں نعرہ کہیں پتھر بن کر
خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں سے
سر اٹھاتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں سے
ظلم کی بات ہی کیا ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کہ بجھاؤتو بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے

نوٹ: صاحب رائے کی تحریر ان کااپنا نقطہ نظر ہے اس سے ادارے کا متفق ہوناضروری نہیں ہے…