حکمران طبقہ اور پی ٹی آئی کے درمیان غیراعلانیہ بات چیت مسلسل قومی سیاست پر حاوی ہے،مذاکرات کی خبریں زیر گردش ہیں مگر محرکین کی باقاعدہ تصدیق نہیں کی گئی،تاہم مذاکراتی گلیوں میں بھٹکنے والوں کوبندگلی کی طرف جانکلنے کا خوف لاحق ہوگیا اس لئے اب کی بار رابطوں کو ٹوٹنے نہیں دیا گیا کچھ نہ کچھ نتیجہ برآمدہوسکتاہے.اس لئے تجزیہ نگار ناقد بھی مجموعی طورپر کچھ اسی طرح کی کڑیا ں ملاتے دکھائی دیتے ہیں شاید اب کی بار مذاکراتی بیل منڈے چڑھ جائے اور زیادہ اختلاف بھی نہیں،مینڈیٹ کی واپسی، سچائی کمیشن، معافی تلافی جیسے آئیڈل مطالبات آنکھوں سے اوجھل ہونے لگے ہیں.
ایجنڈے پر سمجھوتوں کا امکان ظاہر کردیا گیا یعنی جو سیٹ اپ بن گیا یہ کڑوی گولی نگلنے پڑے گی،ریلیف کا راستہ نکل سکتا ہے ۔پارلیمانی غلام گردشوں میں یہ سننے کو ملا کہ غیر رسمی گفت وشنید ہوئی اور دونوں جانب سے بات چیت کا سلسلہ مزید جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیاہے تصدیق نہیں ہوسکی ۔ لگتا ہے کہ ماضی کے بیانیہ کے برعکس مذاکراتی پیش کش کی شرمندگی خفت ممکنہ پریشانی کے پیش نظر اصل مذاکراتی علمبرداریہ آگاہ سے گریز کررہے ہیں ہاں ہم تیار ہوئے مذاکرات کے لئے اس کے مصداق ،صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کی صورتحال لگ رہی ہے، کسی نے کیا خوب تبصرہ کیا کہ شف شف کرنے کی بجائے ،، شفتالو،،پورا نام کیوں نہیں بول دیتے، پر کیسے اس کا اعتراف کریں کیونکہ مذاکرات کے معاملے پر ٹھن گئی تھی.
ایک دوسرے کو آستین چڑھا چڑھا کر للکارا جارہا تھا ایک طرف چورڈاکو، دوسری طرف سیکورٹی رسک جیسے القابات دیئے جارہے تھے ۔ ایک عرصے تعطل رہا مذاکرات کا فیصلہ تک نہیں ہوسکا تھا، اور ایسا لگ رہا تھا ایک فریق بارے میں کہ شاید اسے مذاکراتی افادیت کا ادارک نہیں۔ذرائع کا دعوی ہے کہ اب کی بار دونوں طرف سے ایک دوسر ے کی تجاویز سنی گئیں تاکہ سب شراکت داروں کو پیشگی اس کا علم ہو،حتمی کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا ۔کچھ لو کچھ دو کے فرسودہ فارمولا کی بازگشت سنائی دے رہی ہے بس آبرومندانہ اور عزت والا محفوظ راستہ ہو ۔
اس صورتحال کی اسپیکر قومی اسمبلی سردارایازصادق کی تازہ پیش کش سے بھی کڑیا ں ملانے کی کوشش کی جارہی کہ جس میں انھوں نے کہا ہے کہ حکومت، اپوزیشن میں تلخیاں ختم کرنے کےلیے مذاکرات بہت ضروری ہیں اور مذاکرات کے لیے میرا دفتر اور گھر ہر وقت حاضر ہے۔ سیاسی ایشوز سمیت کسی بھی معاملے پر مذاکرات میں کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہوں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ اس موقع پر اسپیکر کو ڈی چوک واقعات کے حوالے سے متاثرین سے اظہار یکجہتی بھی کرنا چاہیے تھا مزید برف پگل سکتی تھی، کیونکہ ان واقعات کو فراموش کرنے کی جہموریت متحمل نہیں ہوسکتی ۔اب امکان یہی ہے،اب کی بار بھی وہی گفت وشنید کا مقام ہوگا جو ماضی میں بانی چئیرمین پی ٹی آئی کے خلاف تحریک عدم اعتمادممکنہ استعفی کے معاملات الجھنے سے سلجھانے کے لئے رات گئے بات چیت کا محورومرکزتھا ۔ بس فریقین اس شرمندگی سے بچنا چاہتے ہیں کہ بیانیہ کے برعکس مذکرات کے محرک بن گئے خواہش مندوں کے ناموں کو عیاں نہ کیا جائے ۔
الزام تراشی تو کی جارہی کہ منت سماجت پر اتر آئے جب کہ دوسرا فریق کہہ رہا ہے کہ یہ خود آئینی حثیت کی تلاش میں ہیں اس لئے خود رجوع کررہے ہیں احتیاط کوئی بساط الٹ نہ دے ۔ بات چیت کا کوئی بھی ماحول ہو تسلیم کرنا پڑے گا آخرکار سیاسی اصولوں پر سمجھوتہ کرنا پڑجاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہوتو بند گلی کے سفر کا خوف تھا مگر ایسے خوف کب تک ۔حقیقی تبدیلی آنی ہے آئین کی حکمرانی سے جس میں سب کے دائرہ کار متعین ہیں ۔
نوٹ : صاحب رائے کی تحریر سے ادارےکا متفق ہونا ضروری نہیں