جنیوا میں ڈونرز کانفرنس ہماری امیدوں سے زیادہ کامیاب رہی اور پاکستان کو سیلاب کی تباہ کاریوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حالیہ نقصانات کے ازالے کیلئے کوئی گیارہ ارب ڈالرز کی امداد اور رعایتی قرضوں کے وعدے کئے گئے، جس پر عمران خان اور پی ٹی آئی کے کچھ دوسرے رہنمائوں کے بیانات پڑھ کر حیرانی بھی ہوئی اور افسوس بھی۔

یوں محسوس ہوا جیسے وہ یا تو اس کانفرنس کو ناکام ہوتے دیکھنا چاہتے تھے یا وہ ناخوش تھے کہ پاکستان کو اتنی بڑی امداد دئیے جانے کے وعدے کیوں کئے گئے۔

عمران خان نے تو یہ بھی کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کو لاؤ لشکر سمیت جنیوا جاکر بھیک مانگتے ہوئے شرم نہیں آتی؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ معیشت کو سنبھالنےکے دعویداروں نے آج خود غیروں کے پاؤں پڑ کر بھیک مانگی۔

عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ لوگ وہاں سے بھی خالی ہاتھ لوٹیں گے۔ تحریک انصاف کا یہ بیانیہ ہے کہ 13جماعتوں پر مشتمل موجودہ حکومتی ٹولے نے چند ماہ کے اندر ملکی معیشت تباہ کردی ہے، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اور آج اگر معیشت نا سنبھالی گئی تو کل اس کا نقصان ریاست کو اٹھانا پڑے گا۔

اب ذرا ایک سال پیچھے چلے جائیں تو عمران خان کی حکومت کے بارے میں کچھ ایسے ہی خیالات پی ڈی ایم جماعتوں اور اُن کے رہنمائوں کےتھے۔

اُس وقت کہا جا رہا تھا کہ اگر عمران خان کی حکومت کو نہ ختم کیا گیا تو معاشی حالات اتنے خراب ہو جائیں گے کہ پاکستان کی ریاست کو نقصان پہنچ سکتا ہے،کہا گیا کہ ریاست کو بچانے اور معیشت کو ٹھیک کرنےکیلئے عمران خان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد پی ڈی ایم نے اپنے سیاسی نقصان کا احساس کئے بغیر حکومت میں آنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن حقیقت میں معاشی حالات بد سے بدتر ہوتے گئے اور اب ہم اپنے بیرونی دوستوں اور آئی ایم ایف سمیت بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے معاشی مدد اور قرضوں کے خواہاں ہیں تاکہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا جاسکے۔

اب جب کہیں سے امداد ملنے کے اشارے مل رہے ہیں تو عمران خان اور تحریک انصاف کو اس پر اعتراض ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ موجودہ حکمرانوں کو دوسروں سے بھیک مانگتے ہوے شرم آنی چاہئے لیکن جب اُن کی اپنی حکومت تھی تو وہ بھی دنیا سے پاکستان کیلئے بھیک مانگتے تھے اور اپنے دور میں یہ بھی کہتے رہے کہ اُنہیں دوسروں سے پیسے مانگتے بہت بُرا محسوس ہوتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم سب بھک منگے بن چکے ہیں، اپنا گھر درست کرنے کی بجائے دوسروں کے آگے بار بار ہاتھ پھیلاتے ہیں۔

حکومتیں بدل جاتی ہیں اور نئےحکمراں آ جاتے ہیں لیکن معاشی حالات بدلتے ہیں نہ ہمارے اطوار۔ بار بار آئی ایم ایف کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔

سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات جیسے اپنے دوست ممالک کے دروازے کو بار بارکھٹکھٹاتے اور بھیک مانگتے ہیں تاکہ تباہ حال معیشت کو کوئی سہارا مل جائے جو نہیں ملتا اور اس کی سب سے بڑی وجہ ایک ہے۔ وہ وجہ معیشت پر ہمارے سیاستدانوں کی سیاست ہے۔

اسی سیاست کی وجہ سے ہم اپنا گھر ٹھیک نہیں کرتے۔ کسی سیاستدان سے پوچھ لیں سب کو معلوم ہو گا کہ پاکستان کی معیشت کی خرابی کی بڑی وجوہات کیا ہیں اور معیشت کیسے ٹھیک ہو سکتی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ حکومت میں آ کر ہر سیاسی جماعت وہ کچھ کرنا چاہتی ہے جو خراب معیشت کو ٹھیک کرنے کیلئے ضروری ہوتا ہے لیکن اپوزیشن پاپولر پولیٹکس کرتے ہوے نہ تاجروں اور زراعت پر ٹیکس لگانے دیتی ہے اور نہ ہی پٹرول ،ڈیزل اور بجلی و گیس کی قیمتیں بڑھانے دیتی ہے، چاہے اس سے حکومت کو کھربوں کا نقصان ہو رہا ہو۔ جب نقصان میں چلنے والے اداروں کو بند کرنے یا اُن کی نجکاری کی بات کی جاتی ہے تو اپوزیشن پھر سیاست کرتی ہے۔

وہی اپوزیشن جب حکومت میں آتی تو وہ بھی یہ سب کچھ ٹھیک کرنا چاہتی ہے لیکن اُس وقت پچھلی حکومت والے اپوزیشن میں آچُکے ہوتے ہیں اب معیشت پر سیاست کرنے کی اُن کی باری ہوتی ہے۔

معیشت پر اس گندی سیاست نے ایک طرف ملک کا یہ حال کر دیا اور دوسری طرف ہمیںبھک منگا بنا دیا لیکن افسوس کہ ہمارے سیاستدان سیکھتےنہیں۔ اب تو حالات اتنے بدتر ہو چکے کہ کوئی بھی حکومت میں آ جائے وہ ناکام ہی ہوگی، نہ معیشت ٹھیک ہو سکتی ہے نہ عوام کی مشکلات میں کمی ہو گی۔

سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات جیسے دوست بھی کب تک ہمیں بھیک دیتے رہیں گے۔

اب تو ان دوستوں نے بھی پاکستان کیلئے اپنی امداد اور قرضوں کو آئی ایم ایف کی’’ ہاں‘‘ سے مشروط کر دیا ہے۔ جن سے ہم بار بار قرض اور بھیک مانگتے ہیں اب تو وہ بھی چاہتے ہیں کہ ہم اپنے حالات درست کریں یعنی امیروں سے ٹیکس لیں، نقصان دینے والے اداروں کو ٹھیک کریں یا بیچ دیں، بجلی و گیس کی چوری کو روکیں تاکہ گردشی قرضوں سے جان چھڑائی جائے، حکومت کے فضول اخراجات ختم کریں اور اپنی جیب کے مطابق اپنی زندگیاں گزاریں۔ لیکن ہم ہیں کہ معیشت پر سیاست سے باز نہیں آتے۔

اگر ہمیں بھک منگوں کی طرح ہی زندگی گزارنی ہے تو پھر ہمارا مقدر تباہی کے سواکچھ نہیں۔

اگر ہمیں اپنے حالات درست کرنے ہیں تو پھر معیشت پر سیاست کا کھیل بند کرنا ہو گا اور تمام سیاستدانوں کو ایک میثاق معیشت پر اتفاق کرنا ہو گا۔ ہمارے لئے اس کے علاوہ کوئی دوسرا رستہ نہیں بچا۔