آئینی تنازعات کی پارلیمانی آئینی کمیٹی
مشترکہ مفادات کونسل کے بارے وزیراعلی خیبرپختونخواعلی امین گنڈاپورکے وزیراعظم کولکھے گئے خط کا معاملہ صوبائی پارلیمانی وفد کے رہنما احمدکریم کنڈی نے اسپیکرز کانفرنس میں اٹھادیا۔وزیراعلی کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وفاق کی جانب سے مسلسل آئین سے انحراف کیا جارہا ہے ۔
دس سال کے بعد مشترکہ اسپیکرز کانفرنس پارلیمینٹ میں شروع ہوگئی ہے ۔ مرکز اور صوبوں میں آئینی تنازعات کے حل کے لئے قومی پارلیمانی آئینی کمیٹی کے قیام پر مشاورت پر اتفاق ہوگیا ہے۔ تین صوبے فوری طور پر مشترکہ مفادات کونسل کی عدم فعالیت کو ایجنڈے پر لے آئے ۔ کانفرنس میں قومی اسمبلی صوبائی اسمبلیوں آزاد کشمیر گلگت بلستان کے اسپیکرز سیکرٹریز کے ہمراہ شریک ہوئے ۔
وفاقی وزیرقانون نے آگاہ کہا کہ قانونی اصلاحات کے لئے 80سے زائد تجاویز تیار ہیں ۔احمدکریم کنڈی نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس طلب نہ کرکے آئین سے انحراف کیا جارہا ہے اس بارے میں وزیراعلی کے پی کے نے وزیراعظم کو خط لکھا ہے نئی حکومت آنے کے بعد ایک اجلاس بھی تاحال سی سی آئی کا نہ ہوسکا ہے ۔
رہنما پی پی پی سلیم مانڈوی والا نے بھی ان کی تائید کی ہے۔ بعض شرکا نے 18ویں ترمیم کے رول بیک ہونے کی خدشات ظاہر کئے جس پر انھوں نے تسلی دلوائی گئی کہ عوامی حقوق اور صوبائی خودمختیاری کی اس آئینی اسکیم کو مسمار نہیں ہونے دیں گے ۔ رہنما پی ٹی آئی عامر ڈوگر سمیت اسپیکرز نے وفاق میں تعلیم صحت ماحولیات، زراعت ہاوسنگ و تعمیرات کے وزارتیں آئینی تقاضا کے مطابق تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔
اسپیکر کے پی کے نے آئی جی پولیس اسلام آباد کی طرف سے صوبے کے گرفتار ارکان کے پروڈکشن آ رڈرپرعمل نہ کرنے سے آگاہ کردیا ۔پنجاب کی طرف سے خیبرپختونخوا کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے ارکان سے متعلق پروڈکشن آ رڈرزاسلام آباد میں پہنچ کر لیپس ہوجاتے ہیں،مسئلہ تو ہے طریقہ کار وضح کرنا ہوگا،
وفاقی وزیرقانون اعظم نزیر تاڑر نے مسئلے کا اعتراف کیا ہے اور کہا ہے دائرہ کار اور حدودکا معاملہ ہوسکتا ہے، متفقہ لائحہ عمل طے کرنا چاہیئے ۔جب کہ خیبرپختونخوامیں دہشت گردی کے معاملہ کو پارلیمانی ایجنڈے میں شامل کرلیا گیا ہے اس معاملے پر پارلیمینٹ کی نگرانی میں وفاقی صوبوں کے سیکرٹریز داخلہ کا مشترکہ اجلاس ہوگا، پندرہ روز میں رپورٹ طلب کی گئی ہے ۔پارلیمانی سروسز ادارہ سے بھی وفاق اور صوبوں سے متعلق پارلیمانی آئینی امور پرتقابلی جائزہ پر مشتمل رپورٹ طلب کی گئی ہے ۔آئینی تنازعات کے حل کے لئے وفاقی حکومت نے سینیٹ قومی صوبائی اسمبلیوں کے مشترکہ قومی پارلیمانی آئینی کمیٹی کے قیام کی پیش کش کردی۔
اسپکرز کانفرنس نے پاکستان ایسوسی ایشن آف پبلک اکاونٹس کمیٹی کی قیام کی قرارداد منظور کر لی۔پاکستان ایسوسی ایشن آف پبلک اکاونٹس کمیٹی میں قومی اسمبلی اور چھ اسمبلیوں کی نمائندگی ہو گی۔کمیٹی کا پہلا اجلاس چھ ماہ کے اندر ہو گا۔قومی اور صوبائی پبلک اکاونٹس کمیٹیوں کی ایسوسی ایشن آڈٹ معاملات پر تعاون کریں گی، پاکستان ایسوسی ایشن آف پبلک اکاونٹس کمیٹی کی قرارداد اسپیکر سندھ اسمبلی نے پیش کی جسے منظور کر لیا گیا۔
سینیٹر فوزیہ ارشد نے انکشاف کیا کہ 18ویں ترمیم پر عملدرآمد کی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس پانچ بار طلب کرنے کے باوجودنہ ہوسکا ۔ قانون سازاداروں کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔بعض ارکان نے کہا کہ صدر گورنرز کو بلز ارسال کئے جاتے ہیں روک لئے جاتے ہیں کئی ماہ گزرجاتے ہیں کاروائی کا پتہ نہیں چلتا وزیراعظم وزیراعلی کے پاس کئی کئی ماہ بلز پڑے ہوتے ہیں.
وزیرقانون نے کہا کہ آئین کے مطابق ارسال بل صدر گورنرکا کوئی پیغام نہ ملنے پر دس روز بعدقانون بن جاتا ہے اسپیکر پنجاب نے کہا کہ ہم اپنے اس اختیار کو مکمل طور پر استعمال کررہے ہیں کسی صوبے کے لئے کوئی مشکل نہیں قانون قواعد موجود ہیں ۔ قانون سازی میں رکاو¿ٹ پیدا نہیں کی جاسکتی ہے ۔