فوج میں ڈسپلن کیلئے قوانین 12-13صدی قبل مسیح سے یونانی جنگ ٹروجن سے ملتے ہیں جسے پہلے یورپی ادیب ہوور نے تحریر کیا تھا ، برصغیر میں شہاب الدین غوری نے شکست پر جنگ سے بھاگنے والے فوجیوں کے منہ پر جانوروں کے تھوبڑے چڑھا کر کھانا دیا اور ظہیر الدین بابر نے سولین کو لوٹنے والے فوجیوں کے ناک کان کٹوا کر بارہ ہزار کے لشکر میں پھرایا گیا.
برطانوی فوج نے اپنے آرمی ایکٹ 1869 پر 1909 میں غوروضوض کے بعد ترامیم کر کے بر صغیر میں نافذ کیا جسے 1911میں انڈین لیجسلیٹو نے منظور کیا جسکا اطلاق 1912 میں ہوا جس میں فوجی کا الگ تشخص تسلیم کیا گیا اس سے پہلے انڈین فوجیوں کو نیٹو ( مقامی باشندے ) کہ کر پکارا جاتا تھا ،مگر آرمی ایکٹ کا اطلاق سولین پر نہی ہوتا تھا انڈین آرمی ایکٹ کو بھارتی اور پاکستانی فوج نے اپنایا ۔پاکستانی فوج میں بغاوت کے حوالے سے پہلا کیس پنڈی سازش کیس ہے جس میں چار فوجیوں سمیت فیض احمد فیض ،سجاد ظہیر ،محمد حسین عطا ، بیگم نسیم شاہ کو فوج نے گرفتار کیا مگر اس کیلئے الگ راولپنڈی کانسپریسی ایکٹ بنایا گیا ،
لاہور میں قادیانیوں کے خلاف تحریک کو کچلنے کیلئے گورنر جنرل ملک غلام محمد نے مارشل لاء لگا کر شہری نظام لیفٹنٹ جنرل اعظم خان اور رحیم الدین کے حوالے کر دیا جو یکم فروری 1953 سے 14 مئی 1953 تک قائم رہا جس میں امیر جماعت اسلامی مولانا سیدابو اعلی مودودی اور مسلم لیگ کے سکریٹری جنرل مولانا عبدالستار خان نیازی کو پھانسی کی سزا سنا دی جو دنیا بھر کے احتجاج اور غلطی پر چادر دن بعد قید میں بدل دی گئی چار ماہ میں شہر میں فسادات رک گئے ۔مولانا سید ابو اعلی مودودی نے رحم کی اپیل نہی کی ،جماعت اسلامی کی اپیل پر کئی سال بعد ہائی کورٹ نے ان سزاؤں کو غیر قانونی قرار دے دیا .
فیلڈ مارشل ایوب خان نے آرمی ایکٹ میں 1(d)2 کا اضافہ کر کے 1967 میں اسکا دائرہ کار سولین تک بڑھا دیا کیونکہ ایوب خان کے خلاف ہنگامے شروع ہو چکے تھے وہ اسکا تدارک فوجی عدالتوں سے چاہتے تھے بھٹو انکے وزیر اور پارٹی کے سکریٹری جنرل تھے ، مگر مظاہرین کو فوجی عدالتوں تک نہی لے جایا جا سکا کیونکہ احتجاجی تحریک بہت پھیل چکی تھی اور بھٹو بھی الگ ہو چکا تھا ۔
ذولفقار علی بھٹو نے پہلی بار اس ترمیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 1977 میں پہلا مقدمہ شروع کیا جس میں عبدالولی خان ،سردار عطا اللہ مینگل ، حبیب جالب ،شیر محمد مری سمیٹ 55 افراد گرفتارکیا گیا مگر فوری انکے مقدمات کو غداری اور بغاوت میں بدل دیا گیا اور فوجی عدالت میں نہی چلایا گیا الگ ٹربیونل قائم کیا گیا ،ضیاالحق نے اس ٹربیونل کو ختم کر دیا اور معذرت کی کہ اس سے فوج کا کوئی تعلق نہ تھا جبکہ جنرل جیلانی ڈی جی آئی ایس آئی اس ٹربیونل کو یہ کہ کر ختم نہی کرنا چاہتا تھا کہ شیخ مجیب الرحمان کا اگر تلہ کیس ختم نہ کرتے تو بنگلہ دیش نہ بنتا ، حقیقت میں اس کیس نے ہی مشرقی پاکستان میں آگ کو بھڑکایا تھا ۔
بھارت نے کبھی بھی آرمی ایکٹ کا دائرہ کار سولین تک نہی بڑھایا ۔ جنرل ضیا الحق نے مارشل لاء لگا کر ایک سو ملٹری کورٹس بنائیں سولین کو پھانسی ، قید اور کوڑوں کی سزائیں دیں جن میں جماعت اسلامی کے سکریٹری جنرل لیاقت بلوچ کے بھائی سعادت بلوچ کی پھانسی بھی شامل ہیں.
سال 1999 میں دو افراد کو کراچی میں ملٹری کورٹ نے پھانسی کی سز دی سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس کو غیر آئینی قرار دیا مگر انکو پھانسی دی جا چکی تھی ،12 جنوری 1999 میں کم عمر طلحہ ولد نعیم خان کو نا بالغوں کے بالغوں کے ساتھ ٹرائل کی چلڈرن ایکٹ کے تحت پابندی کے باوجود سزا دی گئی ۔ 1998 میں نواز شریف نے سولین حکومت کی مدد کے قانون میں ترمیم کر کے ساری پاکستان میں فوجی عدالتیں بنائیں.
عمران خان کے دور حکومت میں 29 سولین کا کورٹ مارشل کیا گیا سزائیں دی جبکہ سولیس حقوق کے بے لوث محافظ کرنل (ر)انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے عمران خان کو قانون میں کی گئیں ان ترامیم کو ختم کرنے کیلئے ملاقاتیں بھی کیں مگر وہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کے زیر اثر تھے اور اب شہباز شریف حکومت میں 21 دسمبر2024 کو 25 افراد کو فوجی عدالتوں سے سزائیں دی جا چکی ہیں ،میں خود دو بار یحییٰ خان اور ضیاآلحق کی فوجی عدالتیں بھگت چکا ہوں اور بخوبی جانتا ہوں فوجی عدالتوں میں سولین کے مقدمات چلانا نا پسندیدہ عمل ہے وہاں سول عدلیہ جن پر قوم کے اربوں روپیے خرچ ہوتے ہیں پر بھی عدم اعتماد اور نا اہلی کا الزام ہے.
فوجی عدالتوں سے سولین کا ٹرائل مہذب دنیا میں بدنامی اور معاشی پابندیوں کا بھی جواز پیش کرتا ہے، فوج کے ہی مدعی بننے اور الزام پر فوجی عدالت میں ہی مقدمہ چلانا انصاف کے تصور کو محدود کر دیتا ہے ۔
نوٹ: یہ تحریرڈاکٹر عبدالودودقریشی ( ستارہ امتیاز )کی ہے جو ملک کے نامور اخبارات کے مدیر رہ چکے ہیں..