پارلیمینٹ جسے عوامی محورومرکز تصور کیا جاتا ہے کیونکہ عوام کے منتخب نمائندوں کا یہ نمائندہ فورم ہے لیکن ان دنوں یہ بھی مصنوعی مہنگائی کی زدمیں آگیا ہے ۔40روپے میں روٹی 150روپے میں چائے۔ملازمین مہمان پریشان ہوگئے اضطراب جائیں تو کہاں جائیں اسپیکر چیئرمین سینیٹ تک بھی رسائی نہیں متعلقہ اعلی حکام کو شکایات ملنا شروع ہوگئیں۔

یہ قوم کی اجتماعی دانش گاہ ہے اور یہاں اگر اس طر معاملات نظر اندازہوتے رہیں کہ نہ کم از کم اجرت کے قانون پر عملدارآمد ہوتا ہو نہ قیمتاًکھانوں روٹی چائے کے بندوسبت کی نگرانی کی جاسکتی ہے پھر یہ توشفافیت کے معاملات میں چراخ تلے اندھیرا کے مصداق ہوا بس تھوڑے لکھیے کو کافی سمجھیے ۔

پارلیمینٹ ہاؤس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہاں سستے ترین کھانے ارزاں نرخوں پر روٹی چائے دستیاب ہوتی ہے مگر صورتحال برعکس ہے نشاندہی اس لئے ضروری ہے کہ انتظامیہ آگاہ ہو سب پہلے بڑے مقامات پر نرخ اور کچن کے معائنہ ہوں اور ایک سابقہ وفاقی وزیرداخلہ نے اس کی روایت بھی قائم کی تھی جب فائیوسٹارزہوٹلز سمیت پارلیمینٹ ہاؤس کے کیفے ٹیریا، کنیٹنز کے کچنز کے معائنے ہوئے سیل کی نوبت بھی آئی تھی۔

رودادیہ ہے کہ اس عالیشان عمارت جہاں ہزاروں ملازمین کام کرتے ہیں۔سینیٹ قومی اسمبلی کے اجلاسوں کے مواقع پر خوب رونقیں ہوتی ہیں کیفے ٹیریا کنٹینزکے کاروبارکا کوئی مسئلہ نہیں رہا۔آگاہی یہ کہ یہاں تو کوئی کرایہ بھی نہیں لیا جاتا۔مشہور کردیا گیا کہ پارلیمینٹ ہاؤس کی کنٹینز اور کیفے ٹیریا پر کم ترین نرخوں پر کھانے دستیاب ہیں۔صورتحال برعکس، روٹی لینی ہے تو چالیس روپے۔ چائے پینی ہے تو ایک سو پچاس کی ادائیگی کھانوں کے نرخوں کے بارے تو بس ہائے ہائے یہ مہنگائی۔ کسی قسم کا کرایہ نہیں لیا جاتا یہ درست ہے فرنیچر وسیع جگہ کی سہولیات ہیں .

حالیہ نئے ٹینڈرز ہوئے مروجہ اصولوں اور پیپرارولز کے مطابق ردوبدل کے فیصلے کم ریٹس کے لئے کئے جاتے ہیں۔فی الحال تو پارلیمان ہاؤس میںروٹی لینی ہے تو چالیس روپے چائے پینی ہے تو ایک پچاس سو اداکرنے ہیں چارمہمان آگئے تو چائے پڑے گی چھ سو روپے میں۔
اکثر ملازمین ترکاری (سالن) گھر سے لاتے اور مہنگے داموں روٹی لینے پر پریشان ہوگئے ہیں غلام گردشوں میں شکایات کی بازگشت سنی اعلی حکام کے پاس بھی شنوائی کے لئے پہنچ گئے۔نئے ٹینڈرز اور نرخ سوالیہ نشان۔کیونکہ کمی تو نہ ہوئی۔