پارلیمینٹ میں قومی اسمبلیوں کی قائمہ کمیٹیوں میں سرکاری خرچ پر چائے بسکٹ پیش کرنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے یہ اقدام اسپیکرقومی اسمبلی کی طرف سے کیا گیا ہے مگر بہت دیرکی مہرباں آتے آتے تاہم مہنگے ریٹس کا بھی نوٹس لے لیں ۔ پھر بھی کمیٹیوں کے حوالے سے اقدام کی تحسین کی جارہی ہے ۔
قائمہ کمیٹی داخلہ میں ارکان کی جب چائے کے لئے شدت بڑھ گئی تو چیئرمین کمیٹی سے شکوے شکایات شروع کردیئے گئے کہ آج تو چائے بھی نہیں آئی جس پر ڈاکٹرطارق فضل چوہدری بولے کہ بلز منظورکروگے تو چائے ملے گی ،چائے کی طلب بڑھ گئی تو ارکان نے اپنے معاونین کیفے ٹیریا کی طرف دوڑادیئے جو بھاگم بھاگ ڈسپوزیبل کپ میں چائے لاتے نظر آئے۔ معلوم بھی ہوگیا کہ چائے کا ایک کپ 150روپے میں ہوچکا ہے ۔اب یقیناً تحقیقات تو ہونی چاہیے کہ کیا ٹینڈرمیں یہی ریٹس درج ہیں۔
قارئین کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ جب سرکاری ریٹس کچھ اور دیئے جاتے ہیں کام کسی اور پر چلایا جاتا ہے ۔ کنیٹنز کیفے ٹیریا کے ریٹس پرویسے بھی ملازمین میں بے چینی پائی جاتی ہے ،کیونکہ کم ریٹس ملنے پر ٹھیکہ تبدیل کیا جاتا ہے یہی مروجہ اصول ہے ۔ ریٹس کی بازگشت پارلیمانی کمیٹیوں میں سنائی دینے لگی ہے ۔اچھا ہے شروع میں احتیاط کی جائے کہیں کوئی گڑبڑ کا شائبہ عدم شفافیت ہو تو معائنوں نگرانی میں کیا حرج ہے ۔
بہرحال کمیٹیوں میں سرکاری خرچ پر چائے بسکٹس پیش کرنے پر پابندی کا احسن اقدام کیا گیا ہے۔ سب کے لئے مثالی ہے جو بھی ادارہ ہو ٹیکس گزاروں کے پیسے مہمان نوازی کے لئے نہیں سرکاری خرچ پرتواضع ویسے تعلقات بڑھانے کا ذریرہ بن کررہ گیا ہے ۔ بلاتفریق سرکاری اداروں کے فائیوسٹارزہوٹلز میں سرکاری خرچ پرتواضع آوبھگت کا سلسلہ بھی رکنا چاہیے اب بس حد ہوگئی ہے بھاری سرکاری اخراجات پر مہمان نوازیاں یہ ہے دامن مارگلہ میں شہریوں پیغام ۔