انسان کو خشک سالیوں جی وجہ سے خوراک کی کمی اور قحط کا سامنا کرنا پڑا تو قحط کی وجہ سے ہجرت کی ریت پڑی لوگوں کی توجہ زرخیر علاقوں، سر سبز وادیوں کی جانب مبزول ہوئی جب آبادی بڑھنے لگی اور موجود وسائل ناکافی ہونے لگے تو اس دؤر سے دوسروں کی زمین کو ہتھیانے کا سلسلہ شروع ہوا وہاں پر پہلے سے آباد انسانوں کو مار کر غلام بنا کر اپنے کام میں لانے کا عمل وہیں سے شروع ہوا.
آگے بڑھ کر اس نے طبقاتی نظام قائم ہوا پہلے غلام داری پھر جاگیر داری اور آج اس کی صورت بڑے سرمایہ داری نظام کی شکل میں موجود ہے.اب چونکہ انسانی ابادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اس وجہ سے خوراک کی ضرورت کو مدِنظر رکھتے ہوئے اسے ایک پراڈکٹ اور کموڈٹی بنا کر منافع حاصل کرنے اور اشیا صرف کی منڈی کی ازسر نو تشکیل کے لئے دوبارہ زمین پر قبضے کا نیا دؤر کارپوریٹ فارمنگ کے نام سے شروع ہو چکا ہے.
کارپوریٹ فارمنگ کامطلب یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر کے منافع بخش کاروباری بنیاد پر زراعت کو منظم کرنا جدید قسم کی مشینری اور نئے نئے قسم کے بیج استعمال کر کے پہلے کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ پیداوار حاصل کرنا ہے اسی طرح جانورں کے بڑے بڑے فارم قائم کر کے گوشت اور دودھ کی بڑے پیمانے پر پیداوار اور مارکیٹنگ کی گئی .
اس کے نتیجے میں جو چھوٹے چھوٹے خاندانی زمینداری یا خاندانی زراعت تھی وہ ختم ہوتی جا رہی ہے اور زمینیں کارپوریشنز کے حوالے ہوتی جا رہی ہیں اس طرح وہ خوراک پر اپنی اجارہ داری قائم کرتی جا رہی ہیں اور منڈی عام کاشتکار سے دور ہوتی جا رہی ہے مہنگی خوارک کی وجہ اکثریت آبادی خوارک سے محروم ہے اس طرح پانی کو جان بوجھ کر آلودہ کر کے فطرت کی مفت میں ملی ہوئی انسانی ضرورت کی چیز کو منافع کمانے کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے.
سندھ میں کارپوریٹ فارمنگ کے حوالے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں 18 جنوری 2025 کو عوامی تحریک کی جانب سے ایک کانفرنس بھی منعقد کی گئی جس کا موضوع کارپوریٹ فارمنگ کے منصوبے نو تشکیل شدہ اسٹریٹجک کینالز اور ارسا ایکٹ میں ترمیم تھی
کانفرنس میں حصہ لینے والے ملک کے باشعور محب وطن عوام دوست سیاسی جماعتوں کے رہنما دانشور صحافی، وکیل، شاعر آبی ماہرین، کسان ،مزدور اور طالب علم سمجھتے ہیں کہ کارپوریٹ زرعی فارمنگ منصوبے کے لئے جو زمین عرب ممالک کی کمپنیوں اور عسکری کمپنی کے حوالے کی جائے گی اس منصوبے کو جو پانی دیا جائے گا اس کی وجہ سے سندھ بلوچستان سرائیکی وسیب بیابان بن جائیں گے .
حکومت کی جانب سے کئے گئے اعلان کے مطابق کارپوریٹ فارمنگ کے لئے 48 ہزارایکڑ زمین حاصل کی جانی ہے اس کے لئے سندھ سے 13 لاکھ ایکڑ پنجاب کے سرائیکی ریجن سے 13 لاکھ ایکڑ خیبر پختونخوا سے 12 لاکھ ایکڑ اور بلوچستان سے 10 لاکھ ایکڑ زمین حاصل کی جائے گی. اب تک سندھ میں 52 ہزار ایکڑ زمین فوج سے منسلک گرین پاکستان انیشٹو پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے حوالہ کی گئی ہے .
دوسری جانب پنجاب کے اضلاع بھکر خوشاب اور ساہیوال کی 45 ہزار ایکڑ سے زائد زمین گرین پاکستان انیشٹو پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے حوالے کی گئی ہے.
چولستان اسکیم کے تحت گریٹر چولستان کے تحت 46 لاکھ سے زائد جب کہ سمالر چولستان اسکیم کے تحت 19 لاکھ ایکڑ سے زائد ٹوٹل 66 لاکھ ایکڑ زمین کارپوریٹ زرعی فارمنگ منصوبوں کے لئے آباد کئے جانے کا پلان ہے جس کے لئے دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں سے 06 اسٹریٹجک کینال نکالنے کا وفاقی سرکار نے اعلان کیا ہے جب کہ چولستان منصوبہ کے لئے تین کنالز کی گنجائش بڑھانے کے ساتھ ساتھ 04 نئے کینال اور تین چھوٹے ڈیم بھی بنائے جا رہے ہیں.
زمینی حقائق کو مد نظر رکھا جائے تو یہ بات بلکل واضح نظر آتی ہے کہ ایس آئی ایف سی کے تحت کارپوریٹ زرعی فارمنگ منصوبوں کے لئے نئی نہریں بنا کر پانی کی فراہمی کا اصل مقصد ملک کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کے لئے کیا گیا ہے یہ فیصلہ سندھ کے عوام کی نسل کشی کے مترادف ہے جب کہ 1991 کے آبی معاہدے کے تحت دریائے سندھ میں کوٹڑی بئراج کے نیچے ڈیلٹا کے تحفظ کے لئے ایک ملین ایکڑ فٹ پانی چھوڑنے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن عملی طور پر یہ صورتحال ہے کہ پانی نہ چھوڑنے کی وجہ سے انڈس ڈیلٹا کا 92 فیصد علائقہ سمندر کی زد میں آ چکا ہے جس سے زرعی زمین کی تباہی ماہیگیری میں کمی اور تمر کے جنگلات تقریباً ختم ہونے اور زیر زمین پانی کے کڑوا ہونے کی وجہ سے پاکستان کو ہر سال دو ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہو رہا ہے .
اس تناظر میں جب بھی سندھ ڈیلٹا کی تباہی اور بدین سجاول ٹھٹھہ کی زرخیز زمین کی تباہی کی بات کی جائے تو حکمران یہ بات سننے کو تیار نہیں ہوتے ان کے رویہ سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ یہ پاکستان کے کسی حصے کا نہیں بلکہ کسی اور ملک کا ذکر ہو رہا ہو
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسٹریٹجک نہروں سے سندھ مکمل طور پر بنجر ہو جائے گا اس کے ساتھ انڈس ڈیلٹا جو دنیا کا پانچواں بڑا ڈیلٹا ہے اس کا صفاٰیا ہو جائے گا ا س کا نتیجہ پورے ملک کو خطرناک ماحولیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا .
اس لئے وقت کی ضرورت ہے کہ کارپوریٹ زرعی فارمنگ کے منصوبوں کے نام پر ملک بھر کی لاکھوں ایکڑ زمین عرب اور دوسری غیر ملکی کمپنیوں اور عسکری کمپنی کو دینے کی بجائے یہ زمینیں بے زمین کسانوں کو دی جائیں جن کے ذریعے حقیقی زرعی انقلاب آ سکے اور معاشی ترقی ہو سکے….
نوٹ: یہ تحریر راقم کی اپنی تائے و تحقیق ہے اس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں..