پارلیمینٹ میں خوب رونقیں لگی ہوئی ہیں۔مذاکرات پر حکومتی بیانات کی حکومت کو ،ہی وضاحت پیش کرنے کی نوبت آچکی ہے۔دودن قبل دعوی تھا کہ سرکار والے جارحانہ پوزیشن پر ہیں کمیشن نہ بنانے سے متعلق وزراءکے بیانات کی ابھی سیاسی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ حکومتی ٹیم کے ترجمان کو مذاکرات ٹوٹنے کا خدشہ پیدا ہواور واضح کردیا کہ حکومت کی طرف سے ابھی تو کچھ طے ہی نہیں کیا گیا پھر کیمشن بنانے نہ بنانے سے متعلق ابھی حتمی رائے کیسی؟۔
پارلیمینٹ کے دونوں ایوانوں میں 17 جنوری 2025 کو القادر ٹرسٹ کیس اور فیصلہ زیربحث رہا ضابطہ کار کے مطابق فیصلہ پر بات ہوسکتی ہے تاہم کسی کی زاتیات کو نشانہ نہیں بنایا جاسکتا ہے یہی پارلیمانی اصول ہے کہ یو وضاحت پیش کرنے کے لئے ایوان میں موجودنہ ہو اس پر انفرادی طور پر تنقید نہیں ہوسکتی مذاکرتی ٹیمیں غلام گردشوں میں متحرک دکھائی دیں وضاحتیں اورصفائیاں پیش کی گئیں اچھا ہوتا کہ طے کرلیا جاتا کہ دونوں اطراف سے ترجمانوں کے علاوہ کسی کومذاکراتی عمل پر پالیسی بیان جاری کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔
سینیٹ میںمسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی پارٹی لیڈر اور حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی کا ‘ایکس’ پر بیان دیا ہے کہ ذرائع کے حوالے سے میڈیا میں آنے والی اس خبر میں کوئی صداقت نہیں کہ حکومتی کمیٹی نے پی ٹی آئی کے چارٹر آف ڈیمانڈز کے جواب میں اپنا موقف تیا ر کرلیا ہے۔ یہ خبر اور اس میں بیان کی گئی تمام تفصیلات بے بنیاد ہیں۔
اس وقت حکومتی کمیٹی میں شامل سات جماعتیں باہمی مشاورت اور اپنی اپنی قیادت سے راہنمائی حاصل کرنے کے عمل میں ہیں۔ حتمی جواب تیار کرنے میں ایک ہفتہ مزید لگ سکتا ہے۔دوسری طرف بیرسٹر گوہر نے وفاقی وزیرقانون اعظم نزیرتارڑ کے بیان کو مستردکرتے ہوئے واضح کردیا ہے کی عدالتی مقدمات پر عدالتی کمیشن بن سکتا ہے انھوں نے اس ضمن میں بھارت کے تین بڑے فسادات جو عدلیہ میں زیرسماعت آئے ان پر عدالتی کمیشن بننے کی نظیر دی ہے ۔
ان میں بابری مسجد کی شہادت،بمبئی ہنگامے گجرات فسادات ،کرناٹک جلاو¿گھیراو¿کے واقعات کی مثال دی اور کہا کہ ٹرائل کیسز میں کمیشن بن سکتے ہیں بصداحترام حکومتی مذاکراتی ترجمان سے گزارش ہے کہ ان کو کامیاب بنانا ان کی زمہ داری ہے ایک طرف پارلیمان میں یہ معاملات ہیں تو دوسری طرف دونوں ایوانوں میں باہمی الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سابقہ وزراءاعظم نوازشریف ،بے نظیر بھٹو مرحومہ سمیت دیگر کے خلاف خلاف بننے والے مقدمات کو غلظ قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا تاہم انھوں نے ساتھ واضح کیا ہے کہ سابق وزرااعظم کے خلاف تو سیاسی مقدمات بنے لیکن بشری بی بی کاتو سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے نہ وہ سیاسی فیصلوں کا حصہ رہی انھیں کیوں سیاسی انتقام نشناہ بنایا جارہا ہے ،یہ توتھیں مذاکراتی حال احوال۔
دونوں ایوانوں میں کورم کی نشاندہی کے ذریعے حکومت کا پریشان کرنے کا سلسلہ جارہی ہے اور کسی حد تک حکومت دباو¿میں نظر بھی آرہی ہے یہی وجہ ہے دوروزقبل وزراءکے بیانات میں جوش وخروش پایا جاتا تھا اب دفاعی پوزیشن پر نظر آرہے ہیں سینیٹ میں خوب کاروائی چلی ایجنڈا لیا گیا، گولی کیوں چلائی ۔ کپتان کو رہا کرو کے نعرے جاری رہے ،کورم نہ ہونے کے معاملے پر پیپلزپارٹی کے ارکان صورتحال سے محظوظ ہوتے دکھائی دیئے اور حکومت کے بے بسی کا دور دور سے نظارہ کرنے والی پوزیشن اختیارکرنے کا سماں تھا۔
پارلیمینٹ میں سوشل میڈیا کی بھرمار ہے مہمانوں کی بھی خوب آمد ہے اور ۔پارلیمینٹ میں خوب رونقیں لگی ہوئی ہیں کیفے ٹیریا کنٹینز پر رش لگ جاتا ہے غلام گردشوں گیلریوں میں ارکان کے ساتھ گروپ فوٹوز ٹک ٹاک کے لئے وڈیوزبنانے کے مناظر ہیں۔عرصے بعد صحیح معنوں میں ان دنوں پارلیمان عوامی مقام کا منظر پیش کر رہاہے۔مہمانوں کے ہاتھوں میں کھجور سمیت دیگر تحائف نظر آئے ۔ سب کچھ ہے لیکن پارلیمان اہم عوامی ایشوز پر بحث کا فقدان ہے پریس کانفرنسیں بھی پارٹی قائد کی دادو تحسین کے لئے ہورہی ہیں ۔