شفاف انتخابات کا راستہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔شہراقتدارمیں خط کی بازگشت کے تناظرمیں پیشرفت کی کوشش جاری ہے۔مشترکہ دوست پُل کا کرداراداکررہے ہیں۔محبت نامے کا اقرارچاہتے ہیں۔نظریں اسی جانب لگی ہیں شایدجوابی خط کوپوسٹ کرنے والادستیاب نہیں ہے ،کپتان کے ایلچی کواطلاع کردی ہے خط کے اس سارے قضیہ کے دوران ایک بڑی بیٹھک ہوگئی اس بار بڑے بڑے پلنگ رکھے گئے تاکہ کوئی تگڑا مشترکہ اعلامیہ برآمد ہووہی ہوا نیتجہ توقع کے مطابق نکلا، اور راولپنڈی اسلام آباد میں دوڑیں لگ گئیں خط سے زیادہ اپوزیشن کی مقبول قیادت کا سرجوڑ کر بیٹھنا زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہورہا ہے ۔
وزیراعظم اور مولانا میں ملاقات کو غیر معمولی اور مذاکراتی بحالی سے تعبیر کیا جارہا ہے ۔شہبازکو اپوزیشن کی اڑان سے آگاہ کیا گہا ہے کہ منزل اور ہدف کیا ہے اس لئے انتشار سے بچاؤکی سوچ بچار کرلیں ،قارئین کرام جانتے ہیں کہ اپوزیشن رہنماؤں کا اہم حالیہ اجلاس سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی میزبانی میں ہوا۔
تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود خان اچکزئی، جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، مصطفی نواز کھوکھر، اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی عمر ایوب، اپوزیشن لیڈر سینیٹ شبلی فراز، تحریک انصاف کے صوبائی صدر جنید اکبر دیگر نے شرکت کی۔
اس کا اعلامیہ جاری ہوا کہ موجودہ حکومت غیر نمائندہ ہے جسے زبردستی عوام پر مسلط کیا گیا ہے۔عوامی امنگوں کو سامنے رکھتے ہوئے اجلاس میں شامل رہنماؤں نے حکومت کے مستعفی ہونے اور ملک میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ الیکشن کمیشن کے تحت شفاف انتخابات پر اتفاق کیا۔سیاسی اور معاشی عدم استحکام سمیت، سماجی ابتری اور دہشتگردی جیسے سنگین مسائل سے نکلنے کا واحد راستہ نئے انتخابات ہے۔
اپوزیشن رہنماؤں نے یہ مطالبہ بھی رکھا کہ ملک میں جبر و فسطائیت کا خاتمہ کیا جائے اور سیاسی قیدیوں کی فوری رہائی ممکن بنائیں۔پیکا ایکٹ کی بھرپور مذمت کی گئی اور اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس کے ساتھ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں جاری دہشت گردی کے اوپر بھی طویل بحث ہوئی اور اس پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ ایک ذیلی کمیٹی بھی اس ضمن میں ترتیب دی گئی کہ آئندہ دنوں میں اس بارے اپنا لائحہ عمل طے کریں اور اپنی قیادت سے مشاورت کے بعد اسے ایک مکمل اور جامع شکل دی جائے۔شایدخط کے تناظر میں پی ٹی آئی سے اس سخت اعلامیہ کی توقع نہ تھی اور یہ سرپرائزثابت ہوا اب کی بار مولانا بھی تو اعلامیہ لکھوانے والوں میں شامل تھے اور بغیر کسی لگی لپٹی سب کچھ واضح کردیا گیا کہ نئے اپوزیشن اتحاد کا ہدف کیا ہے ۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سخت اعلامیہ پر شہراقتدار میں کھلبلی مچ گئی ۔
وزیراعظم ٹیم کے ہمراہ مولانا فضل الرحمان کے پاس پہنچ گئے سربراہ جے یو آئی نے مشترکہ اعلامیہ سے آگاہ کردیا ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے مشاورت کے لئے وقت مانگ لیا ہے ۔ غیر اعلانیہ مذاکرات شروع ہوگئے ہیں ،پی ٹی آئی اور حکومت میں مذاکراتی عمل کی بحالی کی کوشش کے حوالے سے دوطرفہ دوست ہرممکن اثررسوخ استعمال کررہے ہیں اور مولانا بھی اس مذاکراتی عمل کا حصہ ہونگے بس کچھ دیر باقی پردہ اٹھنے والا ہے ۔