اسلام آباد قومی اسمبلی کی پہلے پارلیمانی سال کا آخری سیشن بھی اپوزیشن کی سخت ہنگامہ آرائی میں شروع ہوگیا ہے۔پارلیمان میں تاریخ کا انوکھا معاملہ یہ سامنے آیا ہے کہ چیئرمین قائمہ کمیٹی انسانی حقوق حامدرضا نے جیلوں کے دوروں سے متعلق کمیٹی کاایجنڈا سبوتاژکرنے کا سنگین الزام عائدکرتے ہوئے انتباہ کیا ہے کہ جب تی اڈیالہ جیل کے دورہ طے نہیں ہوگا اجلاس کی صدارت نہیں کروں گا اور کمیٹی اجلاس چھوڑ کر چلے گئے یہ بھی کہا کہ خبردارکرتا ہوں اجلاس نہیں ہونگے ،یعنی بلاواسطہ طور پر کمیٹی فریز ہوگئی۔
قومی اسمبلی کے 13ویں سیشن کوآخری قراردیا جارہا ہے دس روزجاری رہے گی افسوسناک امر ہے کہ اجلاس چلانے کے فیصلہ کی پاسداری نہ ہوسکی اور ایوان وقفہ سوالات کے دوران کپتان کی رہائی ،آئین کے غداروں گرتی ہوئی دیوارکو ایک دھکا اور دو کے نعروں سے گونج اٹھا ۔
پی ٹی آئی نے کورم کی نشاندہی کی جے یو آئی نے ساتھ ان کی بجائے کسی اور کی مددکی۔ اور کورم پورا رہا ۔ بیرسٹر گوہر سے جب اس بارے میں استفسارکیا گیا تو انھوں نے کہا کہ ابھی مولانا متحدہ حزب اختلاف کا حصہ نہیں ۔انھوں نے حکومتی کارکردگی کا ایک سالہ پوسٹمارٹم کرتے ہوئے کہ اگر معاشی استحکام ہے اور مہنگائی نہیں ہے تو پھر ارکان پارلیمان کی تنخواہیں کیوں بڑھائی گئی ہیں ۔
قومی اسمبلی اجلاس سے قبل قائمہ کمیٹی انسانی حقوق کا اجلاس طلب کیا گیا تھا ۔سربراہ کمیٹی حامدرضا غصے میں ہیں کہ دورہ اڈیالہ جیل کیوں سبوتاژ کیا گیا جب کہ حکومتی مشاورت سے ایجنڈاطے کیا گیا تھا ہم نے میڈیا میں اعلان بھی کردیا تھا مگر جانے نہیں دیا گیا کیا26نومبرکے پرتشددواقعات کا ہم نوٹس نہیں لے سکے جب کہ یہ تو ڈی چوک جناح ایونیومیں رونما ہوئے حکومتی ارکان کی تائید سے جیلوں کے دورے کا فیصلہ کیا انھوں نے کہا کہ جب تک کمیٹی اجلاس کا ایجنڈا بحال نہیں ہوتا کسی اجلاس کی صدارت کروں گا نہ اجلاس طلب کروں گا ۔
اجلاس میں وزیرقانون اعظم نذیر تارڑنے کہ اجلاس ہونے دیں میں اسپیکر سے ملوں اور ارکان کے تحفظات پر بات کروں گا۔مگر حامدرضا نے حکومتی یقین دہانی پر اعتمادکرنے کی بجائے ارکان کی مشاورت سے اجلاس احتجاجاً ملتوی کردیا اور کہا کہ بتادوپہلے کمیٹی کا اصل ایجنڈابحال ہوگا پھر کوئی کاروائی ۔ گزشتہ روز چار بلز پر کمیٹی میں جائزہ دھرے کا دھرارہ گیا اور کمیٹی چیئرمین اجلاس برخاست کرکے چلے گئے وفاقی وزیرانسانی تکتے رہ گئے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کے لئے بزنس ہاو¿س ایڈوائزری کمیٹی کی اجلاس کے فیصلے کی پاسداری نہ ہوسکی اسپیکر سردارایازصادق نے کہا طے ہواہے کہ وقفہ سوالات میں نکتہ اعتراض نہیں ہوگا اوریہ کاروائی شروع کردی پی ٹی آئی ارکان نے احتجاج شروع کردیا ۔ پارلیمانی سیکرٹریز کے جوابات سنائی نہ دے رہے تھے ،کانوں پر ہیڈفون تھے۔ نعروں کے دوران پارلیمانی آداب کے برعکس وسل بجائی گئیں گتے کے پلے کارڈزکو باجا بناکر اوو اوو کی گئی اور شاہدخٹک نے کورم کی نشاندہی کردی۔
جے یو آئی کے علاوہ دیگر اپوزیشن جماعتوںکے ارکان اپوزیشن لابی میں چلے گئے ۔کورم کے لئے حکومت کو مددمل گئی اور کورم پورا تھا جے یو آئی کے ارکان موجودتھے کاروائی چلائی گئی، انکم ٹیکس ترمیم ی آرڈنینس سمیت دیگر بلز پیش کئے گئے ۔پریس کانفرنس میں اس بارے میں بیرسٹرگوہر سے میڈیا نے استفسارکیا تھا انھوں نے کہا کہ اپوزیشن متحد ہے بات چیت ہورہی ہے ابھی مولانا متحدہ اپوزیشن کا حصہ نہیں۔ انھوں نے حکومتی کارکردگی کا ایک سالہ پوسٹمارٹم تو کیا مگر اس حوالے سے تسلی بخش جواب نہ دے سکے پی ٹی آئی نے غیراعلانیہ تعاون کے ذریعے صدر وزیراعظم اسپیکر چیئرمین سینیٹ کے انتخابات کو آئینی جوازدیا جب کہ دونوں ایوان تاحال مکمل بھی نہیں ہیں ۔
گوہرکے پاس کوئی دلیل نہ تھی کہا کہ احتجاجاً سسٹم کا حصہ بنے ہیں ،ارکان پارلیمان کی تنخواہوں میں اضافہ سے متعلق خاموش مفاہمت پر بھی کوئی واضح بات نہ کی اور کہا کہ ہم نے مخالفت کی تھی جوازنہیں تھا ناقدین کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر پی ٹی آئی کروڑپتی ارکان کی مراعات میں اضافہ سے متعلق دوٹوک موقف کے اظہار کے بجائے بات کو کوئی اور رخ دینے کی کوشش کررہی ہے بقول چیئرمین پی ٹی آئی اگرتنخواہوں میں اضافہ کا قانون نہیں بنا تھا تو اضافی تنخواہ تو سب نے لی ہے کیا غیر قانونی کام ہوا ہے ایسا ہی تو کیاپی ٹی آئی نے اضافی تنخواہیں لینے سے کیا انکار کیا ہے ۔
اسپیکر چمیبرمیں اپوزیشن قیادت نے سردارایازصادق کو بعض دیگر اہم معاملات پر خد شات سے آگاہ کیا ہے۔ محمودخان اچکزئی بھی شامل تھا ۔ جب کی بیرسٹرگوہر نے بتایا ہے کہ یہ قومی اسمبلی کا آخری سیشن ہے یعنی رواں پارلیمانی سال کا۔ جوآئندہ منگل تک جاری رہے گا دس دن کے ایام کارپورے کرنا ضروری ہے ۔