اسلام آباد (رضی طاہر سے ) امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ابتدائی مہینوں میں جو سیاسی خاموشی اور حکومتی حمایت دیکھی گئی تھی، وہ اب تیزی سے اختتام پذیر ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ہنی مون پیریڈماضی کا قصہ بنتا جا رہا ہے، کیونکہ لاکھوں امریکی شہری سڑکوں پر نکل آئے ہیں، جنہوں نے صدر کی پالیسیوں، بیانات اور اقدامات کے خلاف بھرپور احتجاج کیا ہے۔

ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں کا سلسلہ کئی ریاستوں تک پھیل چکا ہے، جن میں نیویارک، کیلیفورنیا، ٹیکساس، شکاگو اور دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی نمایاں ہیں۔ ان احتجاجات میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں، جن میں انسانی حقوق کے کارکن، اقلیتیں، خواتین، مسلمان، ماحولیاتی تحفظ کے علمبردار، اور طلبہ قابل ذکر ہیں۔

احتجاج کرنے والوں کا مؤقف ہے کہ صدر ٹرمپ کی پالیسیاں امریکی اقدار کے خلاف ہیں۔ امیگریشن پابندیاں، مسلم ممالک کے شہریوں پر سفری پابندیاں، میڈیا پر حملے، اور نسلی تعصب کو فروغ دینے والے بیانات نے امریکہ میں تقسیم اور بے چینی کو جنم دیا ہے۔

ایک مظاہرہ میں شریک خاتون، مارگریٹ تھامسن نے کہا: "ہم نے صدر کو موقع دیا، لیکن اب ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کی پالیسیاں ہمارے معاشرے کو پیچھے لے جا رہی ہیں، آگے نہیں۔”

ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی صدر کا ابتدائی ہنی مون پیریڈ ختم ہونا معمول کی بات ہے، لیکن جس شدت اور وسعت سے یہ ردعمل سامنے آ رہا ہے، وہ غیر معمولی ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگر صدر ٹرمپ نے اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی نہ کی، تو یہ احتجاج ایک مضبوط عوامی تحریک میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ امریکہ میں سیاسی درجہ حرارت مسلسل بڑھتا جا رہا ہے، اور آنے والے دنوں میں صدر ٹرمپ کو مزید عوامی دباؤ اور سیاسی چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے۔