ڈسٹرکٹ نوشہرو فیروز سندھ(ای پی آئی نیوز )
کبھی کتاب کو انسان کا بہترین دوست کہا جاتا تھا۔ علم، سوچ، شعور اور تہذیب کی روشنی یہی کتابیں بانٹا کرتی تھیں، لیکن آج کا انسان کتابوں سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ہم کتاب سے دور کیوں ہو گئے ہیں؟
وہ ذریعہ علم جو قوموں کو بلندی پر لے گیا، آج نظر انداز کیوں ہے؟کتاب سے دوری کی سب سے بڑی وجہ ڈیجیٹل دنیا کی یلغار ہے۔ موبائل فون، سوشل میڈیا، ویڈیوز اور شارٹ کلپس نے نوجوان نسل کی توجہ کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ فوری تفریح اور مختصر معلومات نے گہرائی اور مطالعے کی عادت کو ختم کر دیا ہے۔
تعلیمی اداروں میں بھی کتاب بینی کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ نصاب کے علاوہ کتب پڑھنے کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ لائبریریاں خالی پڑی ہیں، اور کتب میلے محض رسمی تقریبات بن چکے ہیں۔گھریلو ماحول بھی اس تبدیلی کا شکار ہے۔ پہلے والدین خود بھی کتابیں پڑھتے تھے اور بچوں کو بھی اس طرف مائل کرتے تھے۔ آج کے والدین خود اسکرین کے عادی ہیں، جس کا اثر اولاد پر بھی پڑتا ہے۔ایک اور اہم وجہ مہنگائی ہے۔ اچھی کتابیں خریدنا عام آدمی کے لیے مشکل ہو چکا ہے۔ ساتھ ہی کتب فروشوں نے بھی اس طرف سے توجہ ہٹا لی ہے کیونکہ طلب کم ہو چکی ہے۔لیکن کیا کتاب کا وقت ختم ہو گیا ہے؟ ہرگز نہیں۔ جو لوگ آج بھی مطالعے سے جُڑے ہیں، وہ زندگی میں واضح فرق محسوس کرتے ہیں۔ کتاب انسان کی سوچ کو وسعت دیتی ہے، الفاظ میں طاقت پیدا کرتی ہے، اور شخصیت میں ٹھہراؤ لاتی ہے۔
جیسا کہ معروف فلسفی فرانسس بیکن نے کہا تھا: "مطالعہ انسان کو کامل بناتا ہے۔”معروف مصنف مارک ٹوین نے کہا: "وہ شخص جو کتابیں پڑھتا نہیں، اس شخص کے برابر ہے جو پڑھ ہی نہیں سکتا۔”
جبکہ مولانا الطاف حسین حالی کا قول ہے: "کتابیں بہترین استاد اور خاموش رفیق ہوتی ہیں، جو نہ جھڑکتی ہیں نہ تھکتی ہیں۔”یہ اقوال آج بھی ہماری رہنمائی کرتے ہیں کہ کتاب سے جُڑے بغیر ذہنی و فکری ترقی ممکن نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے میں مطالعے کا رجحان دوبارہ زندہ کیا جائے۔ والدین، اساتذہ، حکومت اور میڈیا کو مل کر ایسی فضا بنانی ہوگی جہاں کتاب کو عزت دی جائے، اسے فیشن نہیں بلکہ ضرورت سمجھا جائے۔یاد رکھیں! قومیں وہی ترقی کرتی ہیں جو کتاب سے دوستی کرتی ہیں۔ ہمیں ایک بار پھر کتاب کی طرف لوٹنا ہوگا، کیونکہ یہی علم کا اصل سرچشمہ ہے۔