اسلام آباد (رضی طاہر سے) مشرقِ وسطیٰ میں تناؤ کی نئی لہر اس وقت پیدا ہوئی جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں صحافیوں کے سوال پر واضح طور پر کہا کہ اگر ایران جوہری معاہدے پر رضامند نہ ہوا تو امریکہ فوجی طاقت استعمال کرے گا، اور اس ممکنہ کارروائی کی قیادت اسرائیل کرے گا۔
یہ پہلا موقع ہے جب ٹرمپ نے براہِ راست اسرائیلی حملے کی بات کی ہے، جو کہ ایک سنگین سفارتی اور عسکری اشارہ سمجھا جا رہا ہے۔ ٹرمپ نے یہ بھی انکشاف کیا کہ انہوں نے ایران کے خلاف فوجی کارروائی کے لیے ایک "ٹائم لائن” بھی طے کر رکھی ہے، اگرچہ اس کی مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔ یہ اعلان ایسے وقت میں آیا ہے جب ایران اور امریکہ کے درمیان مسقط، عمان میں بالواسطہ مذاکرات کا آغاز ہو رہا ہے۔
ٹرمپ کی دھمکی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اکتوبر 2024 میں اسرائیل کی جانب سے ایران پر کیا گیا حملہ مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ ایرانی فضائی دفاع نے نہ صرف اسرائیلی میزائل حملوں کو پسپا کیا بلکہ یہ حملہ ایران کی عسکری صلاحیت کا بھرپور مظاہرہ بن گیا، جس نے اسرائیل کو بھی محتاط کر دیا۔ اس تناظر میں، ٹرمپ کا بیان واضح طور پر ایران پر نفسیاتی دباؤ ڈالنے کی ایک کوشش کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔
ایرانی اور امریکی وفود کل 12 اپریل کو دوپہر سے پہلے عمان کے دارالحکومت مسقط پہنچ چکے ہیں، اور سہ پہر میں مذاکرات کا آغاز متوقع ہے۔ ایرانی خبررساں ادارے تسنیم نیوز کے مطابق ان مذاکرات میں عمان کے وزیرِ اعظم دونوں فریقین کے درمیان ثالث کا کردار ادا کریں گے۔ ان مذاکرات کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام، علاقائی کشیدگی اور ممکنہ پابندیوں کے خاتمے جیسے حساس معاملات پر بات چیت کو آگے بڑھانا ہے۔ایرانی قیادت نے اب تک محتاط رویہ اپنایا ہے۔ ایرانی صدر مسعود پزشکیاں نے کہا ہے کہ ایران مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن کسی بھی دباؤ یا دھمکی کے ماحول میں کوئی معاہدہ ممکن نہیں۔ ایرانی اعلیٰ قیادت نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ اگر حملہ ہوا تو ایران بھرپور جواب دے گا۔
کیا واقعی اسرائیل ایران پر حملہ کرے گا؟
ٹرمپ کے اس بیان نے ایک نئے سوال کو جنم دیا ہے: کیا اسرائیل واقعی ایران پر حملے کی قیادت کرے گا؟ یا یہ محض امریکی انتخابات کے تناظر میں کی جانے والی ایک سیاسی چال ہے؟ اسرائیل کا ماضی میں ایران پر براہِ راست حملوں سے گریز اور صرف محدود دائرے میں کارروائیاں کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل خود بھی براہِ راست جنگ کے خطرے کو محسوس کرتا ہے۔ مسقط مذاکرات ایک ایسے نازک موڑ پر ہو رہے ہیں جہاں ایک طرف عسکری دھمکیاں، ناکام حملوں کی تاریخ اور سفارتی دباؤ موجود ہے، اور دوسری جانب ایک ایسا سفارتی راستہ بھی کھلا ہے جو مشرقِ وسطیٰ میں ایک بڑے تصادم کو روک سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا ایران اور امریکہ کے درمیان سفارت کامیاب ہوتی ہے یا خطہ ایک اور جنگ کی لپیٹ میں آتا ہے۔