ملک کی دونوں بڑی دینی جماعتوں کی قیادت کے درمیان ملاقات میں اہم قومی معاملات پر تعاون پر اتفاق رائے دینی سیاسی جمہوری سیاسی حلقوں میں موضوع بحث بن گیا سب کی نظریں دونوں جماعتوں کے تعلقات کار پرمرکوز ہوگئیں ناقدین بھی ان رابطوں کو تحسین کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور سب اس متوقع تعاون کو حقیقی اپوزیشن رابطے قرار دے رہے ہیں
بعض تجزیہ نگار اسے پی ٹی آئی کے لئے سیاسی خطرہ بھی قراردے رہے ہیں دونوں جماعتوں کی قربت کی بازگشت ہے ۔
جمعیت علما اسلام(ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے حافظ نعیم الرحمٰن کے امیر جماعت اسلامی پاکستان منتخب ہونے کے بعدجماعت کے ہیڈکوارٹرمنصورہ کا پہلادورہ کیا۔ملاقات کے آغازمیں سابق سینٹرمعتبردانشورپروفیسر خورشید احمدکے انتقال پر اظہار تعزیت کیا، دعاکی گئی،مرحوم کی امت پاکستان کے لئے خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا گیا
دونوں قائدین نے اس حوالے سے اپنی یادوں کو تازہ کیا خصوصاً مولانا فضل الرحمان نے پروفیسرخورشید سے تعلقات کار کے حوالے سے اہم آگاہی دی۔ ملاقات میںلیاقت بلوچ، امیر العظیم ، ڈاکٹر فرید پراچہ بھی شریک ہوئے۔سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا اور دونوں جماعتوں کی جانب سے اس امر کی تصدیق کی گئی ہے مشترکات پر قریبی رابطے اور تعاون کی سازگارفضا بنیادہے۔اگلے مرحلے میں حافظ نعیم الرحمٰن مولانا فضل الرحمٰن ملاقات کریں گے۔
بعض تجزیہ نگاروں کی جانب سے قراردیا جارہا ہے کہ دونوں کی اس قربت سے پی ٹی آئی کے لئے خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے ناقدین کے مطابق پارلیمان میں اپوزیشن کی سب بڑی جماعت قومی عوامی معاملات پر سیاسی عوامی حلقوں کو مایوس کیا ہے۔فارم 47کے بیانیہ کے باجود پی ٹی آئی کی جانب سے صدر وزیراعظم چیئرمین سینیٹ قومی اسمبلی کے اسپیکر کے انتخابات کو آئینی جوازدیا گیا جوفارم 47کے بیانیہ کے سے یوٹرن کے مترادف ہے۔
جماعت اسلامی اورجے یو آئی کی قیادت کے درمیان مجلس اتحادامت کے حوالے سے بھی اہم گفتگوہوئی تجزیہ نگاروں کے مطابق ان رابطوں کو فروغ ملے گا قربت تعلقات کار تعاون کے حوالے سے اپوزیشن کے وسیع کردار کے سلسلے میں جلداہم پیش رفت متوقع ہے ۔برف پگلنے لگی ہے ۔فلسطین سمیت اہم خارجہ دفاع داخلہ معاملات پرکوئی باضابطہ طریقہ کاروضع کئے جانے کا امکان ہے اورقومی امکان ہے کہ متحدہ اپوزیشن کی باگ ڈور دونوں بڑی دینی جماعتوں کے ہاتھ میں ہوگی۔
ناقدین اس کی دلیل یہ دیتے دکھائی دیئے کہ ہ عمران خان کا بیانیہ الیکشن سے پہلے جو بھی تھا، موجودہ سیاسی ریاستی بندوبست پارٹی کی جانب سے وہ کمزورہوتا گیا جس معاملے کی بھی مزاحمت کا اعلان کیا گیا وقت گزرتے ساتھ سمجھوتہ یا یوٹرن لیا گیا۔پارلیمینٹ اور باہر اپوزیشن میں کم از کم ایک بنیادی ورکنگ ریلیشن قائم نہ کی جاسکے ۔اور دعوی کیا گیا کہ سیاسی درجہ حرارت کم کرنا ضروری تھا تاکہ ریاستی معاملات چل سکیں۔جو بھی کہیں حکومت کو کام کرنے کی راہ ہموار ہوتی گئی۔
انتخابی دھاندلی کے بیانیہ کی پی ٹی آئی کے اپنے حلقوں میں پزیرائی کم ہوتی گئی اور پرانی تنخواہ پر کام پر گزارہ کروپالیسی اختیار کرلی گئی اپنے ہی ا ہداف کا پیچھا کیا ہونا تھا اس میں تبدیلی ہوتے دکھائی دی۔ان حالات میں ملک کی دونوں بڑی دینی جماعتوں کے رابطے سیاسی جمہوری حلقوں میں زیربحث آگئے سب نگاہیں مزیدپیش رفت پرمرکوزہیں۔ تعاون پراتفاق ہوگیا ہے۔ماضی کی غلطیوں کا یقیناًدونوں اطراف سے ادراک کیا گیا ہے ۔