فضائی جنگ میں شاہینوں کے ہاتھوں بھارتی پسپائی پر قومی اسمبلی کا ایوان فتح سے سرشار تھا۔ا ایوان میں پاک فوج کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ڈیسک بجتے رہے۔ ایوان نعرہ تکبیر اللہ اکبر پاک فوج زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا اجلاس کی کاروائی عالمی توجہ کا مرکز بن گئی متعددجگہوں پر ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے اسے اپنے ناظرین کو دکھایا گیا۔

بھارتی بزدلانہ شرانگیزی سے پاکستان میں یہ خیر برآمد ہوا ہے کہ وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے نہ صرف خیرسگالی کے جذبات کاتبادلہ ہوا ہے بلکہ مفاہمت کے لئے فریقین آمادہ ہوگئے ہیں ۔میڈیا لاؤنج میں تبصرہ ہوتا رہا کہ سابق وزیراعظم نوازشریف کو اس اہم کاروائی کے موقع پر موجود ہونا چاہیے تھا ۔

شہبازشریف نے بھارت کو للکارتے ہوئے اپوزیشن کی بڑی جماعت کی جانب مفاہمت کا ہاتھ بڑھایا ہے دوسری طرف سے بھی حکومت کو پزیرائی ملی ہے ۔ اور قومی اتحاد و اتفاق کی اس فضا کومزید مضبوط کرنے کے لئے عمران خان سے رابطہ کی معصوم اپیل کردی گئی ہے ۔ پارلیمان کے ہر چیمبر غلام گردشوں لاؤنجزہر جگہ پاک فوج کے گنُ گائے جارہے تھے اور ،ارکان اسمبلی کے ہجوم کی صورت میں موجود مہمانوں کو یہ سنتے بھی دیکھا کہ دفاع وطن کے لئے پاک فوج نے گزشتہ روزجو عظیم کارنامہ انجام دیا ہے وہ پہلے سے زیادہ عوام پاکستان کے دلوں کی دھڑکن بن گئی ہے۔ پارلیمان میں انتہائی گہماگہمی تھی ۔

وزیراعظم شہبازشریف کا شدت سے ایوان میں انتظار تھا وہ کئی اجلاسوں سے ایوان میں نہ آئے تھے ۔ چیمبر بھی آباد ہوگیا اور اسپیکر سردار ایازصادق کی دعوت پر اپوزیشن قائدین بھی وہاں پہنچ گئے کسی جگہ کوئی اختلافی بات نہ ہوئی.

تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اسپیکر پر زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس قومی اتحاد واتفاق کوبرقراررکھنے کے رابطوں کے تسلسل کو نہ ٹوٹنے دیں ۔قارئین کرام پاک فوج سے اظہار تشکرکا سلسلہ ایوان سے غلام گردشوں تک جاری رہا ۔سب فتح سے سرشارنظر آئے ۔ قومی اسمبلی میں قومی ترانہ کے موقع پر بھی غیر معمولی منظر میں قومی اتحاد کی عکاسی تھی، راویت سے ہٹھ کر بدلابدلاماحول تھا۔ شہداکے لئے دعا کی گئی ۔

وزیراعظم جوش خطابت میں ڈیسک پر مکے مارتے دکھائی دیئے نعرہ تکبر بلند ہوا۔اللہ اکبرکی گونج تھی ۔پاک فوج زندہ باد کی بازگشت تھی ۔ وزیراعظم نے ،،ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمودوایاز۔نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز۔شعر پڑھتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کی جانب دوستی کاہاتھ بڑھایا ہے بات چیت کی براہ راست دعوت دی ہے اس موقع پر بیرسٹر گوہر،زرتاج گل دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کے چہروں پر مسرت کی جھلک دکھائی دی،وزیراعظم کو بھی ان کی جانب متوجہ پایا۔پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹوبھی خوب گرجے برسے۔

حکومت پی ٹی آئی میں قربت کی شروعات کو نیوز آف دی ڈے قراردیا جارہا ہے حکمران جماعت کے قائد نوازشریف کی بھی کمی محسوس کی گئی ۔

اپوزیشن کی سرکردہ قیادت موجودنہ تھی اور ان کی کمی محسوس کی گئی ان میں مولانا فضل الرحمان، محمودخان اچکزئی ، عمرایوب خان، اسدقیصرنمایاں ہیں۔مولانا عبدالغفورحیدری نے جے یو آئی کی نمائندگی کی مقبول صدیقی نے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے قومی یکجہتی پر وزیراعظم کو مبارکباد دی ۔ ڈپٹی وزیراعظم وزیرخارجہ اسحاق ڈار مشترکہ قراردادکے لئے متحر ک اور پی ٹی آئی سمیت دیگر جماعتوں سے رابطے کرتے دکھائی دیئے ۔

اپوزیشن نے دوٹوک طور پر بھارت پر واضح کیا ہے کہ رات کی تاریکی میں اس کا بزدلانہ حملہ کسی سیاسی جماعت نہیں بلکہ پوری قوم پر حملہ ہے ۔وزیراعظم سے کہا گیا ہے کہ وہ آئندہ کا لائحہ عمل دے ۔تمام پاکستانی سفارتخانوں، مشنز کو متحرک کرنا چاہیے۔دوسری طرف وزیراعظم نے پیش کش کی ہے کہ میں اپوزیشن کے چیمبر میں آنے کو تیار ہوں ۔

چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹرگوہرنے وزیراعظم کی مفاہمت کی پیشکش کا مثبت جواب دیتے ہوئے تجویز دی ہے ہم بات چیت کے لئے تیار ہیں حکومت کو پاکستان کے مقبول رہنما عمران خا ن سے اب تو رابطہ کرناچاہیے،انھوں نے مثال دی کہ 1971میں جب پاک بھارت جنگ شروع ہوئی توبھارتی وزیراعظم اندراگاندی اپوزیشن قائد واجپائی سے ملاقات کے لئے گئیں اور دست تعاون طلب کیا جس پر بھارتی اپوزیشن قیادت نے کہا کہ گاندی جی یقیناًحکومت آپ کی ہے مگر دیس توہمارا ہے ہم ساتھ ہیں ۔ ہم بھی یہی کہنا چاہتے ہیں کہ شہبازشریف کی حکومت ہوسکتی ہے مگر یہ دیس تو ہماراہے تعاون کے لئے تیار ہیں۔ قومی وحدت کی اس فضاکو برقرارررکھنا حکومتی زمہ داری زیادہ ہے ۔ہم عمران خان کی ہدایت کے مطابق حکومت سے گفتگوکے لئے تیار ہیں انھوں نے اس حوالے سے اسپیکر سے کسی لائحہ عمل کے اعلان کی بلواسطہ اپیل کی ہے ۔

اجلاس دفاع وطن کے لئے جوانوں سے بھرپورمحبت کے اظہار کے لئے دیرپا اثرات چھوڑگیا قومی اتحادکو تقویت دینے کا پیش خیمہ ثابت ہوگا ،کابینہ کا اجلاس پارلیمان میں ہونا تھا تیاری مکمل کرلی گئی تھی تاہم اجلاس منسوخ کردیا گیا ۔بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پارلیمانی کاروائی سے بظاہر حکومت اپوزیشن میں غیر اعلانیہ یا خاموش مفاہمت ہوگئی ہے آنے والے دنوں میں اس کا دوطرفہ باقاعدہ اظہار متوقع ہے اور عمران خان سے قومی مشاورت کا بریک تھرو ہوسکتا ہے ۔ فورم کے انتخاب کے لئے سرگوشیاں ہورہی ہیں۔ ۔اطلاعات کے مطابق قومی اسمبلی کے اس اجلاس کی کاروائی کو دنیا میں کئی جگہوں پر سنا اور دیکھا گیا اب ناگزیر ہے کہ پاکستان میں ٹوئٹر (ایکس سوشل میڈیا )سے پابندی ختم کردی جائے ۔