شہراقتدارمیں سیاسی قیدیوں کی رہائی سے متعلق مطالبات کی شدت نے سابق فوی صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہونے والے ،،قومی مفاہمتی آرڈینینس کی یادتازہ کردی ۔غلام گردشوں میں اس کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ قومی یکجہتی کی فضا کے تناظر میں سیاسی قیدیوں کی رہائی کے مطالبات کی گونج ہے تاہم حکمران جماعت اس مشروط تعاون کی دلیل پر سخ پا ہوگئی ہے اور دور کی کوڑی لے کر آئے ہیں کیا پھر یکجہتی کے لئے ساری جیلوں سے تمام قیدیوں کا رہاکردیں۔

بہرہال ناقدین کا کہنا ہے کہ سیاسی مقدمات کی حثیت سے متعلق ہمیں تاریخ ماضی کے جھرنکوں میں ضرور جھانکنا چاہیے ۔بانی پیپلزپارٹی سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹوپرسنگین مقدمہ قائم ہوا اور وہ تختہ دار پرچڑھ گئے تاہم عدالت عظمی نے اب کیا تاریخ کی درستگی کے لئے اسے عدالتی قتل قرارنہیں دیا ۔موجودہ دور میں نہ صرف اپوزیشن جماعتیں بلکہ حکومتی اتحادی بھی سیاسی قیدیوں کی رہائی کے مطالبات کی تائید کررہی ہیں۔قارئین اسی میں ریاستی مفاد وابستہ ہے کہ اگر چہ قومی ہم آہنگی کو کسی معاملے سے مشروط نہیں کیا جاسکتا تو پھر اس قومی یکجہتی کی فضا کو برقراررکھنا بھی حکمرانوں بشمول مقتدرقوتوں کی زمہ داری ہے اور اگر کسی سیاسی جماعت کو دیوار سے لگانے کے لئے سیاسی مقدمات بنے یا کوئی زیرحراست ہیں تو قومی اتحاد واتفاق سب معاملات پر مقدم ہونا چاہیے اور اس کو تقویت دینے کے لئے جوممکن ہووہ اقدام کرگزرنا چاہیے۔

اس معاملے پر ملک کی سیاسی جمہوری پارلیمانی حلقوں میں نئی بحث شروع ہوگئی۔ دینی جماعتیں جے یو آئی (ف) اور جماعت اسلامی اس امر کی تائیدکررہی ہیں کہ سیاسی قیدیوں کورہا ہونا چاہیے ۔پارلیمان میں اس معاملے پر اظہارخیال کا سلسلہ جارہی ہے۔ ماضی کے فوجی ادوارکے این اراوکی بازگشت بھی ہے ۔جشن اظہار تشکر کے اس ماحول کے کچھ تقاضے ہیں کوئی کسی کو انتقام کانشانہ نہ بنائیں ایسا ہوا ہے تو نظرثانی کرلیں ۔اب تو فتح جشن کے ملک میں جگہ جگہ کیک بھی کاٹے جارہے ہیں ان خوشیوں کا مانندنہ پڑنے دیں۔ سینے چوڑے کریں دلوں اور زہنوں کوجیتں اور موقع مل گیا ہے ضائع نہ کریں۔ پی ٹی آئی کو بھی قومی ہم آہنگی یا یکجہتی کو کسی معاملے سے مشروط نہیں کرنا چاہیے، البتہ اس فضا کو مزید تقویت دینے کے لئے تجاویز پیش کرنے کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے سوچ پر پہرے نہیں بٹھائے جاسکتے ہیں۔

اس ساری صورتحال پر وفاقی دارالحکومت کے بڑے ایوان میں مسلم لیگ ن کے سینیٹ میں پارلیمانی رہنما سینیٹ خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین عرفان صدیقی مشہورکالم نگار بھی ہیں سے جب استفسار کیا گیا تو ان کا دوٹوک کہنا تھا کہ اگر یکجہتی کے لئے کسی قیدی کو رہا کرنا ضروری ہے تو پورے پاکستان کے قیدیوں کو رہا کردیں، سب پاکستانی ہیں،ایک قیدی کی رہائی سے اگر یکجہتی پیدا ہوتی ہے تو باقی قیدیوں کا کیا قصور ہے؟

عرفان صدیقی نے یاد دلوایا ہے کہ 2019 میں جب ہم نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا، جو بھی میٹنگز بلائی گئیں، مسلم لیگ ن آگے بڑھ کر گئی،نواز شریف اس وقت کوٹ لکھپت جیل میں تھے، ہم نے نہیں کہا کہ نواز شریف کو پیرول پہ رہا کریں، ہم نے نہیں کہا کہ جب تک نواز شریف باہر نہیں آتے یکجہتی نہیں ہوگی،اس کڑے وقت کا مقابلہ کرنے کے لئے کسی کا جیل میں ہونا کسی باہر ہونا غیر اہم ہے۔ من و عن ان کے موقف ضبظ تحریر لے آئے ہیں ۔دوسری طرف ناقدین کا کہنا ہے کہ کسی معاملے کے حوالے سے ہمیں سیاق و سباق کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے۔سیاسی معاملات اور قومی سلامتی کے معاملات کو کسی بھی حوالے سے الگ الگ رکھا جاتا ہے ۔

سابق اسپیکرقومی اسمبلی اسدقیصر نے رابطہ کرنے پر موقف دیا ہے عمران خان سمیت دیگرسیاسی قیدیوں کی رہائی کے لئے مختلف آپشنز زیرغور ہیں ۔۔تاہم موجودہ نازک صورتحال میں ہم کوئی ایسا بیان نہیں دینا چاہتے ہیں جس سے پاکستان میں سیاسی تقسیم نظر آئے ۔ لیکن اس پر بھی نظر رکھنی چاہیے ممکنہ سیاسی ہم آہنگی میں کون دراڑ ڈالنے چاہتے ۔حکومت سیاسی استحکام کے لئے ماحول پیدا کرے حکومت کو دوقدم آگے بڑھنا ہوتاہے ۔حکومتی کی زمہ داری ہے کہ سیاسی قیدیوں کا رہا کرے ۔ حکمران قوتوں کسی خوش فہمی میں نہ رہیں سندھ طاس معاہدہ ختم سے متعلق حکومتی اعلان ،اعلان جنگ کے مترداف ہے حالت جنگ میں سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے ہونگے ۔ہم کسی کو بلیک میل نہیں کررہے قومی مفادمقدم ہے مقدم رہے گا ،یہ ضرور ہے کہ یہ بڑھتی سیاسی ہم آہنگی مسلم لیگ(ن) کو ہضم نہیں ہورہی ہے ۔ جب بھی سیاسی قوتوں متحد اور خیرسگالی کے جذبات کا اظہار ہوتا ہے حکمران جماعت میں کسی نہ کسی کو دراڑ ڈالنے کے لئے متحرک کردیا جاتا ہے ۔انصاف احترام ، ہر ایک کے حقوق کے تحفظ آئین قانو ن کی پاسداری سے معاشی سیاسی استحکام آسکتا ہے ۔