پاک بھارت کشیدگی میں بلاول بھٹو زرداری کا کردار: سفارتی محاذ کا سالار
تحریر: قاضی عبد الوحید مہیسر (ایڈووکیٹ ہائی کورٹ)

مئی 2025 کے سیاسی منظرنامے میں جب پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی خطرناک حدود کو چھو رہی تھی، ایسے نازک موڑ پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری ایک بار پھر قومی قیادت میں ایک مضبوط، مدبر اور سفارتی لحاظ سے متحرک رہنما کے طور پر ابھرے۔ ان کا کردار نہ صرف ملک کے اندر بلکہ عالمی سفارتی اور سیاسی حلقوں میں بھی قابلِ تحسین قرار پایا۔

2019 سے بھارت اور پاکستان کے تعلقات مسلسل تناؤ کا شکار رہے ہیں، بالخصوص بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد خطے میں بےچینی میں اضافہ ہوا۔ 2025 کے آغاز میں لائن آف کنٹرول پر مسلح جھڑپوں میں شدت آنے سے دونوں ممالک کے مابین ایک بار پھر جنگ کے بادل منڈلانے لگے۔ ایسے حساس وقت میں پاکستان کی قیادت کے لیے سب سے بڑا چیلنج جنگ سے بچنا، عالمی رائے عامہ کو اپنی طرف مائل کرنا اور امن کی راہ ہموار کرنا تھا۔

ایسے موقع پر بلاول بھٹو زرداری نے نہ صرف ایک سابق وزیر خارجہ کے طور پر اپنے تجربے کا بھرپور استعمال کیا بلکہ پاکستان کے لیے سفارتی محاذ پر ایک نیا مؤقف بھی اجاگر کیا۔ اسلام آباد میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے کہا:

> "پاکستان امن چاہتا ہے، مگر اپنی خودمختاری پر کوئی سودے بازی نہیں کرے گا۔”

یہ بیان اندرون ملک عوام کے لیے حوصلے اور اعتماد کا باعث بنا، جبکہ بین الاقوامی میڈیا، سفارتی تجزیہ نگاروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی توجہ کا مرکز بھی بن گیا۔ بلاول بھٹو کی سفارتی حکمت عملی واضح تھی—بڑی جنگ سے بچنا، لیکن اصولی مؤقف پر ڈٹے رہنا۔

انہوں نے اقوامِ متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم (OIC)، اور دیگر عالمی اداروں کو خط لکھے جن میں جاری تنازع کی سنگینی کو اجاگر کیا اور فوری ثالثی کی ضرورت پر زور دیا۔ خصوصاً چین، ترکی، سعودی عرب، ایران اور امریکہ کے ساتھ اُن کے سفارتی روابط نے پاکستان کی خارجہ حکمت عملی کو ایک نئی سمت دی۔

چینی وزیر خارجہ کے ساتھ ان کی ٹیلیفونک گفتگو میں خطے کے امن، استحکام اور سفارتی اقدامات پر بات چیت ہوئی۔ اس رابطے نے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کو فروغ دیا بلکہ بھارت پر بین الاقوامی دباؤ بڑھانے میں بھی مدد فراہم کی۔

اسی طرح ترکی اور سعودی عرب کی قیادت سے بھی ان کے روابط مسلسل جاری رہے۔ بالخصوص سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ان کی خفیہ ملاقات، جو بعد ازاں ذرائع ابلاغ کے ذریعے سامنے آئی، دونوں ممالک کے درمیان ہم آہنگی کی غمازی کرتی ہے۔

پارلیمانی سیاست میں بلاول بھٹو کا کردار ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔ کشیدگی کے عروج پر انہوں نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں انتہائی مدبرانہ خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہا:

> "یہ وقت سیاست کا نہیں، بلکہ قوم کی عزت و وقار کے تحفظ کے لیے متحد ہو کر قدم اٹھانے کا ہے۔”

ان کا یہ مؤقف حکومتی و اپوزیشن دونوں صفوں میں سراہا گیا۔ بلاول بھٹو نے پارلیمنٹ میں یہ تجویز بھی دی کہ ایک قومی کمیٹی تشکیل دی جائے جو اس تنازع پر مشترکہ حکمتِ عملی تیار کرے۔ یوں انہوں نے نہ صرف سفارتی سطح پر بلکہ قانون سازی کے ایوانوں میں بھی قیادت کا مظاہرہ کیا۔

بلاول بھٹو زرداری کا پیغام بالخصوص نوجوان نسل کے لیے اُمید، تدبر اور امن پسندی کا غماز رہا۔ سوشل میڈیا پر ان کے بیانات، وڈیو پیغامات اور بین الاقوامی میڈیا کو دیے گئے انٹرویوز نے یہ تاثر دیا کہ پاکستان کی نئی سیاسی قیادت مہذب، پرامن اور عالمی سطح پر مؤثر بات کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

تنقید کرنے والوں نے کہا کہ بلاول بھٹو کا یہ کردار محض سیاسی مقبولیت کے لیے تھا، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی قیادت میں پاکستان ایک مضبوط، اصولی مؤقف رکھنے والا اور امن پسند ملک کے طور پر سامنے آیا۔ جب بھارتی میڈیا تنازع کو ہوا دینے کی کوشش کر رہا تھا، تب بلاول کا تحمل، نرمی اور سیاسی تدبر زیادہ باوقار اور قابلِ اعتماد نظر آیا۔

تنازع کے تیسرے ہفتے میں بلاول بھٹو زرداری نے قوم سے ایک جذباتی اور پُراثر خطاب کیا، جس میں انہوں نے کہا:

> "جنگ انسانیت کی شکست ہے، اور امن ہی خطے کی خوشحالی کا راستہ ہے۔”

یہ خطاب نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے دیگر ممالک میں بھی توجہ کا مرکز بنا۔ اس سے یہ پیغام واضح ہوا کہ پاکستان جنگ نہیں چاہتا، مگر اپنے دفاع کے لیے ہر دم تیار ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی یہ تقریر دل کو چھو جانے والی ہی نہیں بلکہ سفارتی لحاظ سے بھی ایک مضبوط موقف کی نمائندگی تھی۔

مئی 2025 کی بھارت-پاکستان کشیدگی کے دوران، بلاول بھٹو زرداری کا کردار محض ایک سیاسی لیڈر تک محدود نہ رہا، بلکہ وہ ایک سفارت کار، مصالحت کار اور قومی ترجمان کے