ممکنہ مفاہمت والوں کا دیمک زدہ انتخابات سے متعلق بیانیہ زنگ آلودہونے کے قریب ہے۔سیاسی حلقوں میں نظریہ ضرورت کی بازگشت ہے، وہی فرسودہ فارمولاکچھ دوکچھ لو یعنی انتخابی دھاندلی کے بیانیہ سے پسپائی ،یوٹرن یا کچھ بھی کہیں، اصولوں کے علم اٹھائے اب شایدوہ تھک گئے ہیں اور غلامی نامنظور کی ذہن سازی کرنے والے نرم پڑتے جارہے ہیں ۔

کچھ ایسی ہی صورتحال شہراقتدار میں ہے ایسے میں بڑی اتحادی جماعت کا یہ معنی خیزبیان بھی سامنے آگیا کہ اگر کوئی اپنا وزیراعظم لانے کی پوزیشن میں ہے تو ہم سے بات کرے مطلب کوئی ایسی ممکنہ سرگرمی شروع ہوسکتی ہے جب مطلوبہ نمبرزکے لئے بھاگ دوڑ نظر آئے گی۔

ایسے میں بعض تجزیہ نگاروں نے 2018،2024کے انتخابی ڈائزائنزکی بات شروع کی یعنی اگرایک فریق نے شیرینی میں لپٹی گولی کڑوی نگلی تھی تو دوسرے کو بھی اس بارے میں قائل کیا جارہا ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ نوازشریف ،مولانافضل الرحمان، محمودخان اچکزئی ،سردار اختر مینگل،حافظ نعیم الرحمان کسی حد تک بلاول بھٹوزرداری ،ایمل ولی خان سمیت بلاتفریق تما م سیاستدانوں نے فروری2024کے انتخابی نتائج پر تحفظات کا اظہار کیا کسی نے مستردکردیئے کسی نے نئے انتخابات کا مطالبہ کردیا کسی نے اسمبلیوں میں نہ جانے کا مشورہ دیا تاہم یہ بیل اس لئے مونڈھے نہ چڑھ سکی کہ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی نے نئے انتخابات کی بجائے دھاندلی کی تحقیقات کے لئے عدالتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کردیا اور اب تک اس لئے معاملے میں کوئی پیشرفت نہ ہوسکی ۔بیانیہ برقراررہا۔

مذاکراتی کھیل شروع ہوا سب جانتے تھے کی وقت گزاری ہے تاکہ انتخابی دھاندلی کے شور پر گردبیٹھ جائے ایسا ہی ہوا اور حکومت کے لئے راوی نے چین ہی چین لکھنا شروع کردیا۔ آکسیجن اپوزیشن کی بڑی جماعت کی طرف سے بھی ملتی رہی اور، فارم 47کے بیانیہ کے باوجود مبینہ طور پر اسی کی کوکھ سے جنم لینے والے سیاسی بندوبست کے سامنے سرنڈر کرتے ہوئے صدر وزیراعظم سے لے کر ہرعہدے کے لئے پی ٹی آئی کے امیدواران میدان میں اترے اور حکومت کو آئینی جوازمل گیا ۔

انتخابی دھاندلی کے موقف پر دھندلاہٹ آنے پر کپتان کو طیش آیا بغیر کسی تیاری کے تحریک کا اعلان کردیا گیا ایجنڈابھی واضح نہ کیا اپوزیشن کے وسیع تر اتحادکی راہیں تاہم استوار ہوگئیں۔مولانا فضل الرحمان اور بیرسٹر گوہر بغل گیر ہوئے۔ایک فریق نئے انتخابات ،دوسرا فریق تحقیقات کو اشتراک عمل کے لئے تجاویز میں سرفہرست لے آیا ۔بات چیت جاری تھی ،مشترکہ کمیٹی بن گئی تھی اور خیبرپختونخواحکومت کے حوالے سے بھی برملا تحفظات سامنے لگے تھے ۔

وزیراعلی کے پی کے نے ایسے متنازعہ بیانات داغ دیئے کہ اپوزیشن میں مشترکہ لائحہ عمل کی کی شراکت داری دھری کی دھری رہ گئی۔دوسری طرف سیاسی قیدیوں کا معاملہ تھا کوئی راستہ سجائی نہ دے رہا تھا ۔پاک بھارت جنگ سے نیا منظرنامہ ابھرا حکومت اپوزیشن کی تفریق مٹ کر رہ گئی تھی۔اداروں سے متعلق تلخیاں فراموش کردی گئیں یہی وہ وقت تھا جب دوسری طرف بھی دل نرم پڑنے لگے ۔9مئی پر10مئی غالب آگیا ۔تعلقات کار استوار ہونے لگے ۔ وزیراعلی کے پی کے نے بانی پی ٹی آئی کی ہدایت پر اسلام آباد میں قومی سرکاری اجلاسوں میں نہ صرف شرکت کی بلکہ مزید تجاویز دی گئیں ہاں میں ہاں ملانے کا ماحول تھا۔جو قومی فرض کی ادائیگی کے لئے جواسلام آباد روالپنڈی کے درمیان سفرکرنے والوں کا پسندیدہ بیانیہ ہے۔تجزیہ نگاروں اور ناقدین بھی کسی حد تک اس تجزیہ سے متفق تھے ان سے بات ہوئی ۔اب سیاسی سمجھ بوجھ نئے استوار ہوتے تعلقات کار پر تو سب کی نظریں تھیں سوچا کسی کے پابند تو نہیں تو،سیاست دریاکی روانی کا نام دیتے نظر آئے اور عدم اعتمادکے حوالے سے صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں والی پوزیشن اختیارکرلی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وفاقی بجٹ2025.26سے متعلق مفادات کی تکمیل کا معاملہ کارفرما ہو کیونکہ یہی موسم روٹھنے منانے کا بھی ہوتا ہے ۔

پی ٹی آئی عدم اعتمادکے معاملے پر کبھی سنجیدہ نظر آتی کبھی تذبذب کا شکار۔ناقدین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی میں یکسوئی نہ ہونے کی وجہ سے یہ اپنے کسی مقصدکے حصول کو ممکن نہ بناسکی بس یہاں بھی وقت گزاری کا ماحول ہے ۔کپتان کو حالات کی سب خبر رہتی ہے ۔انتخابی دھاندلی کا اونٹ کسی اور کرونٹ بیٹھنے کو ہے۔ اب کچھ لودوکے مشورے ہیں انکار اقرارمیں بدلتا دکھائی دے رہا ہے بنی گالا کی رونقیں بحال ہونے کو ہیں۔

ایسے میں پیپلزپارٹی کی سیکرٹری اطلاعات شازیہ مری کا تازہ ترین بیان کہ اگر کوئی جماعت اپنا وزیراعظم لانے کی پوزیشن میں تو ہم سے بات کرے۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ ہمیں جب بھی موقع ملا، بلاول بھٹوزرداری وزیراعظم ہونگے، یہی پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کا اٹل فیصلہ ہے ۔

قارئین کرام معنی خیز بیانات کا سلسلہ جارہی،، سیاسی انہونی ،، کے ااندازے لگائے جارہے ہیں پیش گوئیاں کی جارہی ہیں کہ سمجھوتہ ہی کرنا ہے تو سیاسی حساب کتاب کیوں نہ برابرکیا جائے ۔جو حساب باقی سب آگاہی رکھتے ہیں بعض توعدم اعتمادکی ہانٹی ۔آنچ۔ چولہے کے برملا تبصرے بھی کررہے ہیں ۔ناقدین کا کہنا ہے کہ جوکچھ بھی ہو،دیمک زدہ انتخابات کے موقف سے پسپائی ،مقبول بیانیہ کو زنگ آلود کرنے کے مترادف ہوگا ۔کہاں گیا غلامی نامنظور کا مقبول ترین بیانیہ ۔کچھ دوکچھ لومیں اپوزیشن کی بڑی جماعت ایک اور یوٹرن اپنے نام کرنا چاہتی ہے یہی آثار دکھائی دے رہے رابطوں اور پیغام رسانی میں ۔
نوٹ: یہ صاحب قلم کی ذاتی رائے ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں.