اسلام آباد(محمداکرم عابد)ملک میں غربت کی افسوسناک صورتحال کے باوجود،رواں مالی سال2024.25کا ترقیاتی بجٹ کاتقریباًنصف لیپس ہی سمجھیں۔پندرہ مئی کے بعد بجٹ پرعقابی نگاہیں لگ جاتی ہیں۔اس لئے افسرشاہی اخراجات کا زیادہ رسک نہیں لیتی ہے۔تاہم وزارتیں اکثریتی منصوبوں کی بروقت تکمیل میں ناکام رہیں،متعددنئے منصوبے بھی دھرے کے دھرے رہ گئے۔پھر عوام اپنے،،معاشی کیک ،، اور اپنے حصے کی چادر سے محروم رہ گئے ۔اشرافیہ کی موجیں ہی موجیں ،مجال ہے کہ ایک پیسے کے کٹوتی ہوئی ہو۔
وزیراعظم شہبازشریف نے دعوے کیا تھا کہ سہ ماہی کارکردگی رپورٹس تیار ہونگی لگتا ہے یہ اعلان آنکھوں سے اوجھل ہوگیا تھا۔ملک و قوم کی شدیدضرورت کے باجودکئی اہم آ بی وسائل ،توانائی،مواصلات کے منصوبوں پر بھی کام شروع نہ ہوسکا ۔سیکورٹی کے بھاری بھرکم بے تحاشا اخراجات ضرور جاری ہیں۔ نئے مالی سال2025.26کے قومی ترقیاتی پروگرام کی تفصیلات بھی سامنے آگئیں118منصوبے بندکردیئے گئے۔400ارب روپے کی کٹوتی کے ساتھ1ہزارارب روپے رکھنے کی تجاویز ہیں،ارکان پارلیمان کو 50ارب74کروڑروپے کے فنڈزملیں گے۔شہراقتدارمیںنئے بجٹ کی تیاری زوروشورسے جاری ہے ۔
ایک اہم پارلیمانی جماعت کے رہنما کاکہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے دباو¿ شرائط پرمعاشی پالیسی سازی کا نہ رکنے والاسلسلہ جاری ہے۔،،بجٹ بابو،، عالمی مالیاتی اداروں کے زیراثر ہیں۔ قرض حصول کے ایکٹ آف پارلیمینٹ کی خلاف ورزی جاری ہے کیونکہ پارلیمان نے قانون کے تحت حکومت کے لئے قرض حصول کی حد مقرر ہے ۔ہر دور میں اس حوالے سے احساس بھی فقدان دیکھنے کو ملا۔ضمنی بجٹ سے بھی پارلیمان کو پیشگی آگاہ کرنے کی زحمت نہ کی گئی ۔پارلیمانی تجزیہ نگاروں کے مطابق اس معاملے پر حکومت کے خلاف تحریک استحقاق اور براہ راست وزیراعظم (قائدایوان)بلوانے کی نوبت آسکتی ۔ معاشی ٹیم کی جانب سے اتحادیوں کواعتمادمیں لینے کا سلسلہ جاری ہے ویسے بھی یہ روٹھنے منانے کا موسم ہے۔
کٹوتی کی تحریکوں کے معاملات پر اپوزیشن کی بڑی جماعت بھی بے نقاب ہوگئی ابھی تک تو نئے بجٹ کے حوالے سے راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے ۔ نئے ترقیاتی بجٹ کی چیدہ چیدہ تفصیلات یہ ہیں ،کابینہ ڈویژن کے تحت ترقیاتی اسکیموں کے لیے50 ارب 34 کروڑ روپے رکھنے کی تجویز، یہ ارکان پارلیمان کے منصوبوں سے متعلق ہیں۔آئندہ مالی سال ایس آئی ایف سی کا50 کروڑ 30 لاکھ ،سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے لیے 4 ارب 79 کروڑ ،ریونیو ڈویڑن کے لیے 6 ارب 15 کروڑ روپے کا بجٹ مختص کرنے کی تجویز ہے ،وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے13 ارب 53 کروڑ ، وزارت داخلہ کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 10 ارب 91 کروڑ روپے دینے کی تجویز ہے جبکہ آئندہ مالی سال تشویشنا ک امر یہ کہ وفاقی ترقیاتی بجٹ میں رواں مالی سال کے مقابلے میں کمی کاخدشہ ہے۔
رواں مالی سال کے ترقیاتی بجٹ کے مقابلے میں آئندہ مالی سال 400 ارب روپے کم رکھنے کی تجویز ہے۔خیال رہے کہ رواں مالی سال ابتدائی طور پر وفاقی ترقیاتی بجٹ 1400 ارب روپے مختص کیا گیا تھا ۔بعد ازاں رواں مالی سال کا وفاقی ترقیاتی بجٹ کم کرکے 1100 ارب روپے کیا گیا ۔نئے مالی سال میں یک ہزار ارب روپے رکھنے کی تجویزہے۔آئندہ مالی سال کےبجٹ میں مجموعی سرمایہ کاری کاہدف جی ڈی پی کےچودہ اعشاریہ سات فیصدمقررکرنےکی تجویز تیارکرلی گئی ہے جبکہ آئندہ مالی سال کے دوران تعمیراتی شعبے کی ترقی کا ہدف رواں مالی سال کے مقابلے میں کم کرنےرکھنے کی تجویز ہے۔
بجٹ دستاویز کے مطابق رواں مالی سال کےلیےمجموعی سرمایہ کاری کاہدف 14اعشاریہ 2فیصدمقرر تھااور آئندہ مالی سال اس کو بڑھاکر 14 اعشاریہ 7 فیصد رکھنے کی تجویز ہے،نئےمالی سال کے لیےفکسڈ انو سٹمنٹ کا ہدف جی ڈی پی کے13فیصدمقرر کرنےکی تجویز ہے اوررواں مالی سال کے لیےفکسڈ انوسٹمنٹ کاہدف 12اعشاریہ 5فیصد مقرر کیاگیا تھا-دستاویز کے مطابق آئندہ مالی سال کے لیےنیشنل سیونگزکا ہدف جی ڈی پی کے14 اعشاریہ 3فیصد رکھنے کی تجویز ہے اوررواں مالی سال نیشنل سیونگز کا ہدف13اعشاریہ 3 فیصد مقرر کیا گیا تھا-بجٹ دستاویز کےمطابق آئندہ مالی سال کےلیےتعمیراتی شعبےکی ترقی کا ہدف3 اعشاریہ 8فیصدمقررکرنےکی تجویز ہےاوررواں مالی سال تعمیراتی شعبے کا ہدف 5 اعشاریہ 5فیصد مقرر تھا تاہم رواں مالی سال تعمیراتی شعبے کی ترقی 5 اعشاریہ 5فیصد ہدف کےمقابلے6 اعشاریہ 6فیصد رہی ہے-
دستاویز کے مطابق آئندہ مالی سال بجلی،گیس اورواٹر سپلائی کی ترقی کاہدف3 اعشاریہ 5فیصد مقرر کرنےکی تجویز ہےاوررواں مالی سال بجلی،گیس اورواٹر سپلائی کی ترقی 2 اعشاریہ 5فیصد ہدف کےمقابلے 28 اعشاریہ 9فیصد رہی-ان تجاویز کی منظوری سالانہ منصوبہ بندی رابطہ کمیٹی سے لی جائے گی۔پی ایس ڈی پی کی مزید تفصلات یہ ہیں آبی وسائل کے منصوبوں کے لیے 140 ارب روپے مختص کرنے کی تجویزضرور ہے مگر منصوبے تو شروع ہی نہیں ہوتے بجٹ لیس ہو جاتا ہے ۔تعلیم کے بجٹ پر روایتی نظراندازی کا سلسلہ جاری ہے اوروفاقی وزارت تعلیم کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے19 ارب 68 کروڑ روپے رکھنے کی تجویزہے ۔ جبکہ عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق مجموعی قومی پیداور کا پانچ فیصد (GDP)سے زائدپاکستان میں تعلیم پرخرچ ہوناچاہیے جب کہ اعلی تعلیم کے لئے بھی ترقیاتی بجٹ کے لیے 45 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے اگرچہ یہ صوبائی معاملہ بھی ہے دیکھتے ہیں صوبائی حکومتیں اعلی تعلیم کے لئے کیا عزائم رکھتی ہیں ۔
سب عوامی شعبوں سے تجزیہ نگاروں کے مطابق سوتیلے والا سلوک ہے۔وفاق میں شعبہ صحت کے لیے بس 15 ارب 34 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویزہے۔ریلویز کے ترقیاتی بجٹ کی مد میں 24ارب 71 کروڑ روپے سے زائد مختص کرنے کی تجویزہے۔ جس پر زیادہ تبصرے تجزیہ ہوتے ہیں وہ ہے دفاعی بجٹ ۔وزارت دفاع کے ترقیاتی بجٹ کے لیے 11 ارب 55 کروڑ روپے سے زائد جبکہ دفاعی پیداوار کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے ایک ارب 79 کروڑ روپے رکھنے کی تجویزہے۔آئندہ مالی سال صوبوں، خصوصی علاقہ جات کا ترقیاتی بجٹ 245 ارب 89 کروڑ روپے رکھنے کی تیاری ہے ۔صوبائی منصوبوں کے لیے93 ارب 44 کروڑ کا بجٹ رکھنے کی تجویزہے۔
ضم شدہ اضلاع (سابقہ فاٹا)کے لیے 70 ارب 44 کروڑ،آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 82ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔مجموعی طورپروفاقی وزارتوں اور ڈویڑنز کا ترقیاتی بجٹ 662 ارب روپے،این ایچ اے کاترقیاتی بجٹ 229 ارب ،پاور ڈویڑن کا ترقیاتی بجٹ 104 ارب روپے مختص کرنے کی تجویزہے۔ آئندہ مالی سال تعمیراتی شعبے کے ہدف میں کمی کی سرگرمی ہے۔ہدف3.8فیصدمقررکرنےکی تجویزہے۔رواں مالی سال تعمیراتی شعبے کا ہدف 5.5 فیصد مقرر تھا،رواں مالی سال تعمیراتی شعبے کی ترقی 5.5 فیصد ہدف کےمقابلے6.6 فیصد رہی ہے،آئندہ مالی سال بجلی،گیس،واٹر سپلائی کاہدف3.5فیصد مقرر کیاجارہا ہے۔رواں مالی سال بجلی،گیس،واٹر سپلائی کی ترقی 2.5 فیصد ہدف کےمقابلے 28.9 فیصد رہی،بجٹ میں مجموعی سرمایہ کاری کاہدف جی ڈی پی کے14.7فیصدمقررکرنےکی تجویزہے۔
رواں مالی سال کےلیے مجموعی سرمایہ کاری کاہدف 14.2فیصدمقررکیا گیا تھا۔سرمایہ کاری کا ہدف جی ڈی پی کے13فیصدمقرر کرنےکی تجویزہے۔بچت کے معاملات پر آئندہ مالی سال کے لیےنیشنل سیونگزکا ہدف جی ڈی پی کے14.3فیصد رکھنے کی تجویزہے۔رواں مالی سال نیشنل سیونگز کا ہدف13.3 فیصد مقرر کیا گیا تھا۔ پاکستان کی مجعوعی آمدن کے ریاست کے اصل شراکت داروں عوام پر کم خرچ سے متعلق تیز وتند سوالات کا سامنا وزیرمنصوبہ بندی اصلاحات کا بار بار کرنا پڑرہا ہے۔پی ٹی آئی دور کے بھاری قرضوں کا اس کی وجہ قراردے دیا ہے۔اس کا اصل پوسٹمارٹم معاشی ماہرین ہی کرسکتے ہیں ۔ عوام تو بس قرضوں میں جگڑے جارہیں اور ان پر یہ خرچ بھی نہیں ہوتے اس سال بھی نصف عوامی بجٹ لیپس جسے ضائع کرنے کے مترادف قراردیا جاتاہے ہورہا ہے۔1000ہزار ارب کے پی ایس ڈی پی کے صرف 425ارب خرچ ہوسکے ۔صورتحال کے بارے میںسالانہ منصوبہ عمل، اقتصادی ترقی کے روڈمیپ، اور ترقیاتی ترجیحات پر تفصیلی بریفننگ کے بعد احسن اقبال معاشی بدحالی پر پی ٹی آئی کو کڑوی کسیلی سناتے دکھائی دیئے اجلاس میں صوبائی حکومتوں کے نمائندوں نے شرکت کی ضرور اس معاملے پر خیبرپختونخواحکومت کا موقف سامنا آنا چاہیے ۔
چیف اکانومسٹ ڈاکٹر امتیاز نے شرکاءکو تفصیلی بریفننگ دی ہے ۔احسن اقبال کا کہنا ہے کہ پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجز کی بدولت گزشتہ چند سالوں سے قومی ترقیاتی بجٹ میں کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ملکی حالات کے پیش نظر ترقیاتی بجٹ میں کمی شرح نمو، معاشی اہداف کے حصول اور عوام کو درپیش مسائل کے حل میں سنجیدہ چیلنج کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ہمیں احساس ہے کہ ترقیاتی فنڈز میں وسعت لانے کی ضرورت ہے نہ کہ انہیں سکڑنے کی۔اس وقت نصف سے زائد بجٹ قرضوں کی ادائیگی میں جا رہا ہے،حکومت بیرونی ادائیگیوں، آمدنی میں اضافے اور ترقیاتی اخراجات میں توازن لانے کے لئیے اقدامات کر رہی ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ ترقیاتی بجٹ میں اصافہ کرنے اور وسائل بڑھانے کے لئیے اڑان پاکستان کے تحت متعدد اقدامات کئیے جا رہے ہیں،ترقیاتی بجٹ میں کمی سے ترقیاتی منصوبے متاثر ہوتے ہیں،کم وسائل میں ترقیاتی بجٹ کو انتظام و انصرام مشکل ہے،قومی سطح پر ریونیو میں اضافہ وقت کی ضرورت ہے،عوام منتخب حکومتوں سے صحت، پانی، بجلی اور بہترین انفراسٹرکچر کی توقع رکھتے ہیں،ہمیں اپنی ائیرلائن اور ریلوے کو عالمی سطح پر لے کر انا ہے،پاکستان دنیا کے کم ترین ٹیکس ریونیو والے ممالک میں شامل ہے، ٹیکس چوری روکنے اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے قومی مہم کی ضرورت ہے، عوام کو ٹیکس چوری کرنے والوں پر نظر رکھنی ہو گی،
رواں سال ترقیاتی بجٹ 1000 ارب روپے رکھا گیا ہے،صوبائی نوعیت کے منصوبے اب صوبے خود مکمل کریں، اٹھارویں ترمیم کے باوجود وفاق صوبائی حکومتوں کے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں مدد کرتا آ رہا ہے، 2017-18 میں بہترین ترقیاتی بجٹ دیا، بعد ازاں زوال آیا،محدود فنڈز میں صرف اہم منصوبوں کو ترجیح دی جا سکتی ہے،وزیراعظم کی ہدایت پر تھرڈ پارٹی ویلیڈیشن متعارف کرائی، پی ایس ڈی پی میں غیر ملکی فنڈنگ والے منصوبے بھی اولین ترجیحات میں شامل ہیں،قومی سٹریٹجک منصوبے ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیے جائیں گے، دیا میر بھاشا ڈیم، سکھر-حیدرآباد موٹر وے، چمن روڈ، قراقرم ہائی وے فیز ٹو اہم ترجیحات ہیں۔اعلیٰ تعلیم کے منصوبے تیزی سے مکمل کیے جائیں، تعلیمی شرح 13% ہے، اضافہ وقت کی ضرورت ہے، محدود وسائل میں 118 سے زائد منصوبے بند کیے، ترقیاتی بجٹ میں قومی ہم آہنگی کے لیے اڑان پاکستان کے تحت تمام صوبوں میں ورکشاپس کا انعقاد کیا،صوبوں کے پاس وسائل وفاق سے کہیں زیادہ ہیں،
وفاقی منصوبوں کو قومی مفاد میں ترجیح دی جائے۔دیا میر بھاشا ڈیم کی بروقت تکمیل کا انحصار ہمارے وسائل پر ہے،قومی منصوبوں کی تکمیل اور دائرہ کار بڑھانا لازم ہے، صوبوں اور وفاق کو قومی مفاد میں فیصلے کرنا ہوں گے، 2018 میں نئے منصوبے شروع کرنے کے بارےسوچتے تھے آج جاری منصوبوں کو محدود کرنے کے حوالے سے مشکل فیصلے کرنے پڑے، قومی ترقی میں سب کو اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی،اگر کوئی منصوبہ شامل نہ ہو سکا تو پیشگی معذرتکرہے ہیں،1000 ارب کے اندر تمام وزارتوں کے منصوبے شامل کرنا مشکل تھا۔ یہ ہیں حکومتی مجبوریاں ۔تاہم تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عوام ہی کیوں اپنے،،۔معاشی کیک ،، کے حصے سے محروم رہتے ہیں ان کو اپنے حصے کے چادر کیوں دستیاب نہیں ۔ کبھی ملک کی اشرافیہ کو ایسی صورتحال کا سامنا کرناپڑا؟
نوٹ: صاحب رائے کی تحریرسے ادارے کا متفقق ہوناضروری نہیں