سال 2022 سے لے کر اب تک پاکستان میں صحافت ایک پیشہ کم اور خطرہ زیادہ بن چکا ہے — ایک ایسی جدوجہد جس میں بقا مقدم ہے، کہانی نہیں۔ خبر دینا، سوال کرنا اور تنقید کرنا اب آزادی نہیں بلکہ ایک خطرناک کھیل بن چکا ہے۔ یہ چند سال صرف مشکل نہیں رہے، بلکہ صحافت سے وابستہ ہر فرد کے لیے گھٹن سے بھرپور ثابت ہوئے ہیں۔
شروع میں صرف تنبیہات آئیں۔ پھر آن لائن ٹرولز کا سامنا ہوا۔ اس کے بعد گرفتاریاں ہوئیں۔ اور بعض کے لیے انجام جلاوطنی یا موت کی صورت میں سامنے آیا۔ 2022 میں کینیا میں ارشد شریف کا بہیمانہ قتل صرف ایک صحافی کا نقصان نہیں تھا، بلکہ اختلاف کی قیمت کا اعلان تھا۔ ہزاروں میل دور چلنے والی وہ گولی ہر پاکستانی نیوز روم کے دل پر لگی۔ پیغام واضح تھا: زیادہ بولو، سچ کھودنے کی کوشش کرو، اور تم غائب ہو سکتے ہو۔
عمران ریاض خان، جو اپنے دبنگ تجزیات اور یوٹیوب پر موجودگی کی وجہ سے جانے جاتے تھے، 2023 میں لاپتہ کیے گئے۔ مہینوں بعد واپسی ہوئی، لیکن وہ شخص بدل چکا تھا۔ خبر صرف ان کی گمشدگی نہیں، ان کی واپسی کے بعد چھا جانے والی خاموشی تھی۔ ان کا کیس اس بات کی علامت بن گیا کہ نظر نہ آنے والی زنجیریں، نظر آنے والی زنجیروں سے زیادہ قید کرتی ہیں۔ اور وہ اکیلے نہیں تھے۔ پاکستان بھر میں — خاص طور پر بلوچستان اور اندرون سندھ — درجنوں صحافی ریاستی دباؤ، تشدد، اور دھمکیوں کا سامنا کر چکے ہیں۔ کئی لوگ صحافت چھوڑ چکے ہیں، اور جو باقی ہیں وہ نگرانی تلے کام کر رہے ہیں۔
خواتین صحافیوں کو سوشل میڈیا پر منظم کردار کشی کا سامنا ہے۔ ریاست، جو ان کی حفاظت کی ذمہ دار ہے، اکثر خاموش تماشائی بنی رہتی ہے — بعض اوقات خود ہی حملہ آور بھی۔ خاص طور پر ڈیجیٹل اور آزاد صحافت ایک میدان جنگ بن چکی ہے، جہاں محاذ صرف اسکرین تک محدود نہیں رہا — اب یہ عدالتوں، واٹس ایپ پیغامات اور آدھی رات کو دروازے پر دستک تک پھیل چکا ہے۔
اور اس پورے نظامِ جبر کی بنیاد ہے ایک قانون: پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ — یعنی پیکا۔ 2016 میں متعارف کروایا گیا یہ قانون پہلے ہی متنازع تھا، لیکن 2024 میں موجودہ حکومت نے اسے مزید سخت بنا دیا۔ نئی ترامیم کے تحت ایف آئی اے اب کسی بھی شخص کو بغیر وارنٹ گرفتار کر سکتی ہے، اگر اس پر ریاستی اداروں کے خلاف "جھوٹی معلومات” پھیلانے کا الزام ہو۔ لیکن یہ جھوٹی معلومات ہیں کیا؟ اس کی کوئی واضح تعریف نہیں — اور یہ ابہام جان بوجھ کر رکھا گیا ہے۔ یہی ابہام ریاست کو کھلی چھوٹ دیتا ہے کہ وہ ایک ٹویٹ سے لے کر پوری تحقیقی رپورٹ تک پر صحافیوں کو نشانہ بنا سکے۔
فوج، عدلیہ یا حکومتی شخصیات پر تنقیدی رائے دینا اب گرفتاری کی وجہ بن سکتا ہے۔ صحافیوں کو طلب کیا جا رہا ہے، ان کے فون اور لیپ ٹاپ ضبط کیے جا رہے ہیں، اور ان کے ذرائعِ معلومات کو خطرے میں ڈالا جا رہا ہے۔ اور یہ سب "قومی سلامتی” کے نام پر ہو رہا ہے۔ نیوز رومز حساس موضوعات سے اجتناب کرنے لگے ہیں، ایڈیٹرز خبریں شائع کرنے سے انکار کرتے ہیں، اور صحافی خود ساختہ سنسرشپ پر مجبور ہو گئے ہیں۔ یہ خوف محض ایک تصور نہیں، ایک حقیقت ہے۔ آپ اپنا روزگار، آزادی، بلکہ اپنے خاندان کا سکون کھو سکتے ہیں — صرف اپنا کام کرنے کی پاداش میں۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ سب, کچھ صرف "مخالف آوازوں” کے ساتھ نہیں ہو رہا۔ مقامی بدعنوانی، شہری مسائل یا لاپتہ افراد پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی بھی خاموش کر دیے جاتے ہیں۔ کئی یوٹیوب چینلز بلا کسی وضاحت کے demonetize یا shadow-ban کیے جا چکے ہیں۔ قانونی دباؤ کے ساتھ ساتھ مالی دباؤ بھی عذاب بن چکا ہے۔ اب صرف سنسر نہیں کیا جا رہا — آپ کو بھوکا بھی رکھا جا رہا ہے۔
ایسے ماحول میں صحافت کی ترقی کی امید رکھنا سادگی ہے۔ لیکن ہار مان لینا بھی کوئی آپشن نہیں۔ اگر کوئی امید باقی ہے، تو وہ اتحاد میں ہے۔ صحافتی تنظیموں کو اب اپنی نیند سے جاگنا ہوگا۔ سوشل میڈیا پر بیان جاری کرنا یا تصویریں کھنچوانا کافی نہیں۔ ہمیں فوری طور پر مضبوط قانونی مدد، ڈیجیٹل سیکیورٹی کی تربیت، ذرائع کو بچانے کے کورسز، اور ہنگامی مالی امداد کی ضرورت ہے۔
اور سب سے بڑھ کر، پاکستانی صحافیوں کو سرحدوں سے باہر اتحاد بنانا ہوگا۔ ہمیں عالمی اداروں، آزادی صحافت کی تنظیموں اور انسانی حقوق کی انجمنوں کو اس جدوجہد میں شریک کرنا ہوگا۔ تب ہی ریاست پر دباؤ بڑھایا جا سکتا ہے کہ وہ اظہارِ رائے پر حملے بند کرے۔
یہ صرف صحافت کا بحران نہیں — یہ جمہوریت کا بحران ہے۔ کیونکہ جب صحافی خاموش ہو جاتے ہیں، تو عوام اندھے ہو جاتے ہیں۔ اور ایک اندھی قوم، بالآخر، آمریت کی گود میں جا گرتی ہے۔