اسلام آباد(محمداکرم عابد)پارلیمینٹ کے دونوں ایوانوں میں وفاقی بجٹ 2025.26پر روایتی تقاریرکا سلسلہ جاری ہے تاحال کوئی ایسا کچھ سامنے نہیں آیا ،جسے گرمی کے حبس زدہ موسم میں عوام کے لئے ہواکا تازہ جھونکا قراردیا جاسکے .

تاہم سندھ میں تاجروں کی بڑھتی مشکلات پر اس اپیل کی ایوان میں بازگشت سنائی دی ہے کہ جب پاکستان کی ایک اعلی ترین شخصیت سے ملاقات کے دوران تاجروں نے مسائل کارونا روتے کہا تھا کہ وزیراعلی مریم نوازشریف سندھ کو دے دیں اور پنجاب مرادعلی شاہ ہم سے لے جائے یہ تھا وہ غیر اعلانیہ طور پرمقتدرقوتوں کے سامنے احتجاج جو صوبہ سندھ میں حالات سے تنگ آئے پاکستان کے معاشی حب کے تاجروں نے اصلاح احوال کے لئے کیا۔

اس اپیل کی بازگشت قومی اسمبلی کے بجٹ سیشن میں سنائی دی ایم کیوایم پاکستان کی رکن نکہت شکیل خان نے سندھ حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے مظلوم تاجروں شہریوں کی دہائی دی ۔پیپلزپارٹی کے ارکان خاموشی سے اس تقریر کو سنتے رہے ،کسی ردعمل سے گریز کیا۔انھوں نے یہ معاملہ بھی اٹھا یا کہ شہرکراچی میں ٹینکرمافیا ایک بڑا کاروبار بن گیا ہے ،ٹینکروں ڈمپرز کی ٹکرلگنے سے 130شہری جانوں سے ہاتھ دھوچکے ہیں ۔واحد شہرہے جہاں بچے گٹرز پر ڈھکنے نہ ہونے کی وجہ سے ان میں پھسلتے اور موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں ۔ انھوں نے سندھ حکومت اور مئیر کراچی کو ناکام قراردیتے ہوئے وفاق سے مداخلت کا مطالبہ کیا ہے ۔ ایوان میں پیپلزپارٹی بھی پیچھے نہ رہی اور ایم کیو ایم سے سیاسی حساب کتاب برابرکرتے ہوئے کھری کھری سنادی گئیں ہیں ۔

ناقدین ایوان میں حکومتی اتحادی جماعتوں کے الفاظی جنگ کو نمائشی قراردے رہے ہیں ساتھ یہ بھی کہنا ہے کہ اچھے بچوں کی طرح بجٹ کو پورے زورشور سے اتحادیوں کے مکمل تعاون سے منظور کرلیا جائے گا۔ ویسے بھی حال ہی میں پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹوسرکاری دورے کے بعد وطن واپس لوٹے ہیں ۔سرکاری دورے پر جانے والے بھلا کیسے بجٹ میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں ۔بلکہ اس بجٹ میں اسٹیبلشمنٹ کے لئے وسائل کی بھرمار پر حکومتی اتحادی جماعتیں بشمول پیپلزپارٹی بجٹ کی منظوری کے لئے پرجوش ہے پیغام کسی اور دینا مقصد ہے ۔امین الحق اور شازیہ مری کو بھی ایک دوسرے کو للکارتے دیکھا اور اسے بھی مصنوعی سیاسی جنگ قرار دیا جارہا ہے .

بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جنہوں نے موجودہ سیاسی حکومتی بندوبست کیا وہ ان لڑائیوں سے محظوظ ہوتے ہونگے کیونکہ سب جانتے ہیں یہ پرانی تنخواہ پر کام جاری رکھیں گے کچھ بدلنے والا نہیں ہے ، حکومتیں گرانا سیاسی مفادات یا ذاتی مفادات کے گرد گھومنے والوں کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ سب راضی ہیں اور اقتدار سلامت جب ناراضگی ہوئی تو حکومتی اتحادی جماعتوں کی آئیں بائیں شائیں کا موسم ہوگا آشیانے ویران ہوجائیں گے ۔عوام کے لئے سب جماعتوں کا دامن ہر قسم کے ایجنڈے سے خالی ہے۔ تقریر برائے تقریریں ہیں عوامی توجہ بھی نہیں رہی نہ ان جماعتوں نہ ان کی قیادت پر ۔ ایوان میں شازیہ مری خوب گرجیں۔ایران پر اسرائیلی حملہ، فلسطینیوں پر جارحیت کی مذمت کرتے ہیں۔بھارت جارحیت ناکام بنائی گئی ۔ ایران کی پارلیمنٹ نے پاکستان کے حوالے سے تشکر کے الفاظ استعمال کئے ہیں وہ بھی قابل تحسین ہیں۔وزیراعظم کا فیصلہ تھا کہ وفد دنیا میں بھیجا جائے۔

پاکستان سے ایک وفد گیا جس کی سربراہی بلاول بھٹو نے کی۔میرے لیڈر نے جس طریقے سے پاکستان کا مقدمہ عالمی فورم پر رکھا وہ قابل تحسین ہے۔بلاول بھٹو نے ہر جگہ کہا میں پاکستان کا مقدمہ لڑ رہا ہوں۔بلاول بھٹو نے مقدمہ کامیابی سے لڑا ہے تو یہ ہم سب کی کامیابی ہے۔بلاول نے ہمارا سر فخر سے بلند کیا ہے۔بھارت سندھ طاس معاہدے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔مودی کی سوچ اس سے مزید بے نقاب ہوئی۔عوام پہلے ہی مہنگائی کا سامنا کر رہی ہے۔حکومت نے بجٹ میں کم سے کم اجرت کا بھی اعلان نہیں کیا ۔پیپلز پارٹی نے تنخواہوں میں اضافہ کیا تھا۔دو بجٹ پیش ہوگئے، حکومت اس بجٹ پر خود تقسیم ہے۔حکومت کی سپورٹ کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اس بجٹ کا حصہ ہیں۔سولر پینلز پر 18 فیصد ٹیکس کو پیپلز پارٹی سپورٹ نہیں کرتی۔سولر پینلز پر 18 فیصد ٹیکس ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔اس اپوزیشن کی حکومت تو سب نے دیکھی ہے۔قرضے آپ نے تاریخ میں سب سے زیادہ لئے۔ای کامرس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔یہ معاملہ بھی اٹھ گیا کہ خزانہ کی ٹیم کہاں ہے، کون نوٹس لے رہا ہے ؟تلاش کرو۔

شازیہ مری کی تقریر کے دوران ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہنگامہ آرائی بھی ہوگئی تھی ۔پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ارکان کے درمیان ہاتھا پائی ہوتے ہوتے رہ گئی للکار تھی کراچی کسی کے باپ کی جاگیر نہیں وہ سندھ کا شہر ہے، ہمیں کراچی سندھ سے الگ نہیں کرنا اور نہ کرنے دیں گے، کراچی سندھ کا ہے اور وہ سندھ کا رہے گا، ایم کیو ایم کے بعض ارکان پیپلز پارٹی کے ارکان کی جانب بڑھنے لگے تاہم آصفہ بھٹو، سحر کامران اور دیگر اراکین بیچ میں آ گئے۔پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ارکان کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔

امین الحق نے کہا کہ سندھ اجاڑ دیا ۔تم لوگوں نے کراچی کو یتیم کیا ہوا ہے، جاوید حنیف نے کہا کہ یہ دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ایوان میں ایک بر پھر سرائیکی صوبے کی گونج بھی سنائی دی ہے ۔پیپلزپارٹی مگرمچھ کے آنسو بہاتے نظر آئی کیونکہ دوبار اقتدار ملنے کے باجود اس معاملے میں پیپلزپارٹی کوئی پیش رفت نہ کرسکی اور انتخابات میں لالی پاپ کے افسانے عوام کو بھی سمجھ میں آگئے یہی وجہ ہے سرائیکی علاقوں جہاں کسی دور میں جیالوں کاڈنکا بجتا تھا پیپلزپارٹی محدودہوتی گئی یہی سبق دیگر جماعتوں کے لئے۔

قومی اسمبلی میں عبدالقادر گیلانی نے سرائیکی صوبے پر بات کی اچھا ہوتا زمہ داروں پر بھی دوجملے کہہ دیتے ۔جنوبی پنجاب کے عوام کے لیے آواز بلند کرنا بہت لازمی ہے۔ہم حکومت وقت کے ساتھ ہیں لیکن کم ازکم ہماری تجاوز پر تو غور کیا جائے۔اگر جنوبی پنجاب کو حق نہ دیا گیا تو ہم ووٹ نہیں کریں گے۔ہم ووٹ دیں گے تو بجٹ پاس ہو گا۔جنوبی پنجاب میں ہمارا سیکریٹریٹ بحال کیا جائے۔تخت لاہور سے پتہ نہیں کب جان چھوٹے گی لیکن ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔کوئٹہ سے ملتان فلائٹ آپریشن شروع کیا جائے۔ملتان کوئٹہ موٹر وے پر بھی کام ہونا چاہیے بلوچستان کا بھی حق ہے کہ وہاں بھی موٹر وے بنے۔۔میرا حلقہ زراعت سے جڑا ہوا ہے۔پچھلے سال کسان مزدور خوار ہوئے اس سال بھی اکنامک سروے میں بتایا گیاصرف 0.56فیصد اگلریکلچرل گروتھ ہوئی ہے۔یہ بجٹ میں ایک نالائقی ہے۔پچھلے سال بھی ہم رونا روتے رہے اور اب بھی یہی حال ہے۔ایوان سے باہر بھی خوب رونق لگی ہے ۔ افضل مروت بضدہیں کہ ان کی پارٹی میں بدستور من پسند لوگوں کر نوازنے کے لیے فیصلے ہورہے ہیں۔جن لوگوں پر الزام تھا کہ انہوں نے چھبیسویں آئینی ترمیم میں اربوں روپے لے کر اپنا ضمیر بیچا پارٹی کو عزیزہیں ۔

ایک کہانی زین قریشی سے بھی منسوب ہے ۔ریاض فتیانہ اور برگیڈیئر گھمن کے بارے میں بھی یادہانی ہے۔2 سال سے پی ٹی آئی میں یہی ہورہا ہے۔ان کا دعوی ہے کہ پی ٹی آئی میں ہر وہ فیصلہ کروایا جاتا ہے جس سے فائدہ اسٹیبلشمنٹ کو ہوتا ہے اور کسی ادارے سے انصاف کی امید نہیں جبکہ یہ لوگ عوام کو بھی نہیں نکال سکتے ، ان تلوں میں تیل نہیں ہے۔پارٹی کے فیصلوں سے ہمیں بانی پی ٹی آئی کی رہائی کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔یہ وہ لوگ عوام کے خلاف ہیں، بانی پی ٹی آئی کے خلاف ہیں۔سینیٹ میں پی ٹی آئی پارلیمانی لیڈر علی ظفر کو اعتبار ہی نہیں ہے کہ یہ بجٹ ہے ان کا کہنا تھا کی ٹیکس شیٹ پیش کی گئی عوام کے لئے بجٹ نہیں آیا ۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ کچھ نیا ہونے والا نہیں ہے ۔سب کسی نے کسی کے رابطے ہیں اور یہی تضادات حقیقی تبدیلی میں رکاوٹ بن کررہ گئے ہیں۔
نوٹ:یہ صاحب قلم کی ذاتی رائے ہے اس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں