ملک میں سیاستدانوں کے ساتھ کسی بھی مشکل وقت میں جو ساتھ دیتا ہے اس امر کی عکاسی ہوتی ہے کہ سیاسی قبیلہ میں ابھی اپنے اقدارکا لحاظ ہے ،ایسا ہی منظر پارلیمان میں سربراہ جے یو آئی(ف)مولانا فضل الرحمان سے سیاسی تفریق کے بغیر ارکان پارلیمان کو ان کے بیٹے اسجدمحمودکے ساتھ یارک ڈیرہ اسماعیل خان میں حالیہ سی پیک انٹرچینج کے قریب دہشت زدہ کرنے یرغمال بنانے کی مبینہ کوشش کے واقعہ کے حوالے سے اظہار یکجہتی دیکھنے کو ملا۔
پارلیمان میں مولانافضل الرحمان کی آمدکی اطلاع پر قومی اسمبلی میں ان کے خطاب کا شدت سے انتظار کیا گیاغلام گردشوں میں اس حوالے سے بازگشت تھی کہ مولانا کسی دفاعی پوزیشن یا لگی لپٹی کے بغیر بدامنی کا پوسٹمارٹم کرتے دکھائی دیئے۔ اسجدمحمودکے ہمراہ مولانا فضل الرحمان ،سینیٹر مولانا عطا الرحمان کے چیمبر میں براجمان تھے کہ ہنگامی طور پر اسپیکر قومی اسمبلی سردارایازصادق ملاقات کے لئے پہنچ گئے تو اس موقع پرسیاسی قبیلہ کی آزمائشوں پر بات ہوئی ۔ اسپیکر سردار ایازصادق کو مولانا کے بیٹے کے ساتھ متذکرہ واقعہ کی آگاہی ہوئی۔۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے سربراہ جے یو آئی سے اظہار یکجہتی کیا اور یقین دہانی کروائی کہ پارلیمان مکمل طور پر مولانا ،ان کے خاندان پارٹی کارکنوں کے ساتھ کھڑی ہے ۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سیاسی جماعتوں کو دیوار سے لگانے کی کوششوں کے کبھی اچھے اثرات نہیں نکلے ،اوراپنے مقاصد کے لئے خاندانوں تک بات پہنچ جائے ایسی صورتحال انتہائی مہلک ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ کسی بھی واقعہ کا ہر جگہ کوئی نہ کوئی توپیغام جاتا ہے کون کیا اثر قبول کرتا ہے اس بارے میں تبصرہ آرائی سے گریز ہی بہترہے ۔ اگر کوئی سیاستدان ملک میں دہشت گردی اور بدامنی کی وجوہات کا پوسٹمارٹم کررہا ہے تو اس میں حرج کیا ہے اسے رہنمائی کے طور پر لیں اپنے طورطریقے بدلیں کسی اور کو موردالزام ٹھہرانے کی بجائے اصل کام پر توجہ دیں یہ پیغام تو مولانا نے دے دیا ہے اور ساتھ انقلاب کی نئی بات کرتے ہوئے اعلان جنگ بھی کرتے دکھائی دیئے.
پارلیمانی گیلریوں میں تبصرے ہورہے تھے کہ مولانا کے الفاظ کی تپش دورتک محسوس کی جارہی ہے ،وہ دفاعی نہیں بلکہ جارحانہ اندازمیں تھے اور خاندان کو دہشت زدہ کرنے کے واقعات کے حوالے سے مولانا پہلے جیسے پرسکون تھے کوئی زیادہ اثر قبول کرتے نظر نہیں آرہے تھے۔ جے یو آئی کے حلقوں میں ان واقعات کے حوالے سے غم وغصہ تو پایا جاتا ہے تاہم کسی کو پریشان یا خوفزدہ نہیں دیکھا اور کسی واقعہ کے پیچھے یہ مقاصدکارفرماہیں تو یہ عزائم کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دیتے ۔ سینیٹ قومی اسمبلی دونوں ایوانوں میں مولانا ان کے خاندان جے یو آئی کے دیگررہنماوں کے ساتھ ناخوشگوار واقعات کی بازگشت سنائی دی ۔سینیٹر مولانا عطاالرحمان نے ایوان بالا کو اسجدمحمود کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کے بارے میں آگاہ کیا تھا.
سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان نے ملک میں شدت پسندی عسکریت پسندی کے معاملات پر بھی کھل کرگفتگوکی انتہائی توجہ سے ان کے خطاب کو سنا گیا حساس گفتگو پر بار بار ان کی آوازکو اسمبلی لائیونشریات پر بند کیا جاتا رہا اس کا توڑ یہ نکالا گیا کہ پارٹی نے ایوان میں مولانا کے خطاب کی ریکارڈنگ کا بندوبست کرلیا گیا ۔ یہ طریقہ پی ٹی آئی کی جانب سے ایوان میں متعارف کروایا گیا اور سنسرشپ ،بلیک آؤٹ کی صورتحال کو بے نقاب بھی کیا گیا ہے ۔
پی ٹی آئی ارکان نے بتایا ہے کہ تقاریر نامکمل نشر ہونے کا بار بار نوٹس لینے کا مطالبہ کیا گیا مگر اصلاح احوال نہ ہونے پرہم نے ایوان میں اپنے مکمل خطاب کی وڈیوز بنانے کا بندوبست کرلیا ہے۔بہرحال مولانا فضل الرحمان نے سنسرشپ کا اسپیکر قومی اسمبلی سے نوٹس لینے اس کے خلاف رولنگ جاری کرنے کا مطالبہ کیا ہے ،
ناقدین کا خیال ہے کہ کیا نوٹس لینا اختیار تو سب اسپیکر کو حاصل ہے پارلیمان کے انتظام و انصرام کے حوالے سے وہ جو چاہیں وہ سب ممکن ہے بس نیتوں کے بات ہے اور اگرمعاملات نظر اندازہوتے رہے تو یہ پارلیمانی نظام کے لئے کوئی نیک شگون تو نہیں ہوسکتا ،پاکستان مسلم لیگ(ن) ماضی میں سابقہ اسپیکر اسدقیصر کے دور میں اظہار تشویش کرتے تھے کہ اسپیکر چیمبر سے کوئی اور ان کے اختیارات کو استعمال کرتا ہے ۔ اچھا گمان قائم کرلیتے ہیں کہ اب ایسی صورتحال نہیں ہے۔ اور کسی کی غفلت کارفرماہوسکتی ہے جو بھی اسپیکر کو پارلیمان کی چارپائی کے نیچے ڈانگیں پھیرنی چاہیں ۔
مولانا فضل الرحمان نے جن تحفظات خدشات کا اظہار کیا ہے انھیں تمام حلقوں کی آگاہی کے لئے ریکارڈ پرلانا ضروری سمجھتا تھا ۔کم لکھے کو کافی سمجھیں اور ان سے ملاقات میں صورتحال کے ادراک کی کوشش کریں ۔پارلیمان میں مولانا صاحب سے اظہار یکجہتی کا اعلامیہ بھی جاری کیا گیا ہے۔؛اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے پارلیمنٹ ہاؤس میں ملاقات کی۔
ملاقات میں ملک کی مجموعی سیاسی صورتِ حال، وفاقی بجٹ اور خطّے میں ایران-اسرائیل جنگ کے تناظر میں پیدا ہونے والی صورتحال پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔مولانا فضل الرحمٰن نے ایران-اسرائیل جنگ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں پوری امتِ مسلمہ کو باہمی اتحاد، یکجہتی اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ خطّے میں امن کی کوششیں کمزور نہ ہوں۔“ انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کو عالمِ اسلام کے اندر مصالحتی کردار ادا کرنے کے لیے اپنی سفارتی کاوشیں مزید تیز کرنا چاہئیں۔
اس موقع پر اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے واضح کیا کہ ”پاکستان نے اسرائیلی جارحیت کی کھل کر مذمت کی ہے اور ایران کے ساتھ دوستی و یکجہتی کا اعادہ کیا ہے۔ ہم نے فلسطین اور ایران کے حوالے سے اپنا موقف ہر عالمی فورم پر موثر انداز میں پیش کیا ہے، اور پارلیمنٹ اس موقف کے مکمل طور پر پیچھے کھڑی ہے۔“ انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو قومی مفاد میں یک زبان ہو کر عالمی سطح پر پاکستان کی پالیسی کو تقویت دینا چاہیے۔
ملاقات میں وفاقی بجٹ 2025-26 پر بھی تبادلہ? خیال ہوا۔ دونوں رہنماؤں نے چھوٹے صوبوں کی ترقی، معاشی استحکام اور عوامی فلاحی منصوبوں کے لیے بجٹ کی فراہمی کو یقینی بنانے پر اتفاق کیا۔ اسپیکر نے کہا کہ پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار بجٹ تجاویز کے سلسلے میں پارلیمانی کمیٹیوں کو زیادہ فعال کیا گیا ہے تاکہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی مثبت آراءکو بجٹ میں شامل کیا جا سکے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے اسپیکر کو فریضہ حج کی ادائیگی پر مبارکباد پیش کی اور ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ملاقات میں گورنر بلوچستان جعفر خان مندوخیل بھی موجود تھے۔آخر میں دونوں رہنماؤں نے جمہوری روایات کے فروغ، قومی یکجہتی کے استحکام اور خطے میں پائیدار امن کے لیے مشترکہ کوششیں جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔جبکہ ملاقات کا وہ اہم منظر تھا جب اسپیکر سردارایازصادق کو اسجدمحمودکے سر پر دست شفقت رکھتے دیکھا۔