وہ شخص جس نے صحافت کا پیشہ بڑی تاخیر سے یعنی نومبر 1960ء میں اختیار کیا ہو، جو کسی سیاسی جماعت سے عملی طور پر وابستہ نہ رہا ہو اور کسی یونیورسٹی سے قانون کا ڈگری ہولڈر بھی نہ ہو، اُس کا یہ لکھنا کہ ’’مَیں نے آئین بنتے دیکھا‘‘ بظاہر عجیب سا لگتا ہے۔ پھر یہ کہ قیامِ پاکستان کے وقت مَیں بمشکل سولہ سترہ سال کا تھا۔ اِس عمر میں عام طور پر سیاست اور آئین کے معاملات کی سوجھ بوجھ بڑی محدود ہوتی ہے لیکن 1940ء میں میرے ہم جماعت ہندو طلبہ نے میرے ذہن میں ایک ایسی چبھن کاشت کر دی تھی جو مجھے لڑکپن ہی سے بےچین کرتی رہی اور اُس نے مجھے قومی امور میں دلچسپی لینے پر مجبور کر دیا تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے منٹو پارک لاہور میں 22 مارچ 1940ء سے ایک تاریخ ساز سہ روزہ اجلاس منعقد کیا جس میں پورے برِصغیر سے ایک لاکھ کے لگ بھگ مندوبین شریک ہوئے۔ اُس اجلاس کے اختتام پر قائدِاعظم کی صدارت میں مسلمانوں کے لئے جداگانہ وطن کے حصول کی متفقہ قرارداد منظور ہوئی۔

جونہی ہندو پریس نے ’قراردادِ پاکستان‘ منظور ہونے کی خبر ہمارے شہر سرسہ تک پہنچائی، ہندو طلبہ نے مجھ سے بیک زبان ہو کر کہنا شروع کیا کہ اِس قرارداد کی منظوری میں برطانیہ کا عمل دخل ہے جو ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی پر گامزن ہے۔ مجھے اُن کی باتوں پر بڑی حیرت ہوئی کیونکہ مَیں جو کچھ اخبارات میں پڑھ اور اَپنے گردوپیش دیکھ رہا تھا، اُس سے پوری طرح واضح تھا کہ انگریز تقسیمِ ہند کے سخت خلاف ہیں اور سوویت یونین کی پیش قدمی روکنے کے لئے ہر قیمت پر ہندوستان کو متحد رکھنا چاہتے ہیں۔

میرے چھوٹے سے ذہن میں یہ معلوم کرنے کی جستجو پیدا ہوئی کہ یہ ہندو طلبہ کس کے اشارے پر ایک انتہائی لغو بات کہہ رہے ہیں۔ تھوڑا سا کریدنے پر پتہ چلا کہ انہیں یہ پٹی اُن کے والدین پڑھا رہے ہیں جو انڈین کانگریس کے زیرِ اثر ہیں۔ ہندوؤں کی یہ سیاسی جماعت ایک دنیا کو گمراہ کرنا چاہتی تھی کہ مسلم لیگ انگریزوں کی پٹھو جماعت ہے ،جو ہندوستان کی آزادی میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ مَیں اُس وقت کوئی نو دس برس کا تھا اور میرے ہم جماعتوں کی باتیں میرے لئے حد درجہ پریشان کُن تھیں کیونکہ قراردادِ لاہور تو برِصغیر کی مسلم قوم کا ہندو اَکثریت کے خلاف تحفظ کا ایک فطری اور عوامی مطالبہ تھا جس نے کانگریسی وزارتوں کے دو سال تک ظلم برداشت کئے تھے۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت ہونے والے صوبائی انتخابات میں کانگریس نے گیارہ میں سے سات صوبوں میں اپنی وزارتیں بنا لی تھیں اور ہندو رَاج قائم کرنے کے جنون میں مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا تھا۔ تب مسلم لیگ نے اُن چیرہ دَستیوں کو منظرِعام پر لانے کے لئے ’پیرپور رِپورٹ‘ شائع کی جس کی اشاعت سے مسلمانوں کے وہ سیکولر طبقے جو کانگریس کے دامن سے وابستہ چلے آ رہے تھے، اُن کی آنکھیں بھی کھل گئی تھیں اور وُہ جوق در جوق مسلم لیگ میں شامل ہونے لگے تھے۔ اِس کے بعد سیاسی تبدیلیوں کی رفتار تیز ہوتی گئی اور پاکستان کی منزل قریب تر آتی گئی۔

انگریز اور ہندو تقسیم کے ہر امکان کی روک تھام کے لئے سازباز کر رہے تھے جبکہ قائدِاعظم نے آئینی جدوجہد کا ایک پُرامن، حددرجہ منطقی اورعوامی راستہ اختیار کیا تھا۔ اُسی حکمتِ عملی کے نتیجے میں مسلم لیگ نے6-1945ء کے انتخابات میں حیران کن طور پر مرکزی اسمبلی کی سو فی صد مسلم نشستیں جیت لیں اور صوبائی اسمبلیوں میں 98فی صد کامیابی حاصل کر لی تھی۔ اِس شاندار اِنتخابی فتح نے وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے آئینی مشیر مسٹر وی پی مینن کو تقسیمِ ہند کا منصوبہ تیار کرنے اور اُسے کانگریس کے انتہائی مضبوط لیڈر سردار وَلبھ بھائی پٹیل سےمنظور کرانے پر مجبور کر دیا تھا۔ کئی مہینوں پر محیط سیاسی مذاکرات کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ، انڈین نیشنل کانگریس، سکھ کمیونٹی اور حکومتِ برطانیہ کے مابین تقسیمِ ہند کا ایک معاہدہ طے پا یا جس کا وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 3 جون 1947ء کو آل انڈیا ریڈیو سے اعلان کیا۔ قائدِاعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ، جواہر لال نہرو نے انڈین نیشنل کانگریس اور بلدیو سنگھ نے سکھ کمیونٹی کی طرف سے اِس منصوبے کی تائید کی۔ اِس عظیم الشان معاہدے کی بنیاد پر برطانوی پارلیمنٹ نے جولائی 1947ء میں قانونِ آزادیِ ہند منظور کیا جس کی رو سے 15؍اگست 1947ء سے دو آزاد مملکتیں ، پاکستان اور اِنڈیا ، وجود میں آئیں۔

ہماری تحصیل سرسہ کے بارے میں عمومی تاثر یہ تھا کہ وہ مسلم اکثریتی ضلع فیروزپور سےملحق مسلم اکثریتی پٹی کے طور پر پاکستان کا حصّہ بنے گی مگر جب 18؍اگست کی صبح شہر سے چند میل دورواقع عیدگاہ سے ہم نماز اَدا کر کے گھر پہنچے تو ریڈکلف ایوارڈ کا اعلان ہو چکا تھا جس میں فیروزپور اَور گورداسپور کے مسلم اکثریتی اضلاع بھی انڈیا کی تحویل میں دے دیے گئے تھے۔ تب ہمیں بہت دکھ ہوا کہ ہماری تحصیل انگریزوں اور ہندوؤں کی ملی بھگت سے پاکستان میں آنے کے بجائے انڈیا کو دے دی گئی ہے۔ اِسی ملی بھگت کے باعث پاکستان کو سیراب کرنے والی نہروں کےہیڈورکس انڈیا میں رہ گئے تھے اور اُسے کشمیر تک پہنچنے کا راستہ بھی مل گیا تھا۔ میرا دَہشت زدہ ذہن یہی سوچتا رہا کہ اگر آل انڈیا مسلم لیگ 23 مارچ 1940ء کے تاریخی دن جداگانہ مسلم وطن کے قیام کی قرارداد منظور نہ کرتی اور قائدِاعظم کی عظیم المرتبت قیادت میں وہ مطالبہ حقیقت میں نہ ڈھل جاتا تو ہندو قیادت پورے ہندوستان ہی کو ہڑپ کر جاتی اور اَپنی اکثریت کے بل بوتے پر مسلم کمیونٹی کو اپنا دائمی غلام بنا لیتی۔ 14؍اگست کی شب پاکستان وجود میں آیا اور اُس کے چند ہی روز بعد ہماری بستی ’مہاجر کیمپ‘ قرار پائی۔

خوش قسمتی سے بندش کے اُن دنوں میں مجھے پڑھنے کے لئے اچھی کتابیں میسر آ گئیں۔ مَیں نے اُسی برس انٹرنس کا امتحان پنجاب یونیورسٹی سےفرسٹ ڈویژن میںپاس کیا تھا اور اَپنے اسکول میں اوّل آیا تھا، اِس لئے آگے پڑھنے کا شوق بہت زیادہ تھا۔ میرے بڑے بھائی حافظ افروغ حسن کئی سال سے جماعتِ اسلامی کے رکن چلے آ رہے تھے۔ (جاری ہے)
بشکریہ روزنامہ جنگ