چوہدری شہباز حسین مشرف دور کے وہ واحد وزیر تھے جن کے مراسم مخالفین سے بھی اتنے تو تھے کہ وہ سب ان کی عزت کرتے تھے، یہ بات بھی ان کی پارٹی کو ناگوار گزرتی تھی مگر وہ ہمیشہ خندہ پیشانی سے کام لیتے ہوئے آگے بڑھ جاتے۔ حکومتی پارٹی میں ہونے کے باوجود ان کے ساتھ عجیب وغریب واقعات پیش آئے مثلاً الیکشن 2002ء کے بعد جب حکومت سازی ہو رہی تھی، کابینہ کیلئے نام فائنل ہو رہے تھے تو چوہدری شہباز حسین کے راستے کی رکاوٹ جہلم کے ساتھ جڑے ہوئے ایک ضلع کی کچھ شخصیات بن گئیں، حالات نے پلٹا کھایا تو حکومتی مجبوریاں سامنے آنے لگیں، مجبوریوں کے اس سفر میں حکومت نے اپنے لئے چوہدری شہباز حسین کو کابینہ کا حصہ بنایا۔کابینہ کا حصہ بننے کے بعد بھی چوہدری شہباز حسین مخالف سیاسی پارٹیوں، صحافیوں اور دیگر طبقات میں مقبول رہے، یہ بھی بڑی عجیب بات تھی کہ ایک غیر مقبول حکومت کا ایک وزیر مقبول تھا۔ یہ وزیر ایوان میں اکثر ایک دیانتدار سیاست دان حامد ناصر چٹھہ کے پاس جاکر بیٹھ جاتا جہاں پہلے ہی سے عمران خان کوئی نہ کوئی سیاسی تجربہ سیکھ رہے ہوتے ۔ان تینوں کے اکٹھے بیٹھنے کی سب سے بڑی وجہ دیانتداری تھی، تینوں ملک لوٹنے کے خلاف تھےاور ملکی بہتری کے خواہاں تھے۔2007ء کے بعد سیاسی حالات نے تینوں کو ایک ایوان میں نہ بیٹھنے دیا بلکہ 2008ء کے الیکشن میں حامد ناصر چٹھہ اور چوہدری شہباز حسین نے جس جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا وہ جماعت ہار گئی جبکہ عمران خان، نواز شریف کے دھوکے کے سبب الیکشن نہ لڑ سکے کیونکہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی، مسلم لیگ ن کے ساتھ ایک اتحاد میں تھیں، ایک چال کے تحت جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کو الیکشن سے باہر کر دیا گیا۔ 2013ء کے الیکشن سے متعلق آصف علی زرداری نے کہا کہ یہ آر اوز کا الیکشن تھا، آصف علی زرداری الیکشن کے وقت صدر پاکستان تھے، جب صدر پاکستان ہی یہ کہہ دے کہ یہ الیکشن آر اوز کا الیکشن تھا تو پھر پیچھے کونسی بات رہ جاتی ہے۔
2018ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی جیتی تو ہارنے والوں نے روایتی الزام ’’دھاندلی ‘‘ لگا دیا ۔ یہ الزام لگانے والوں میں وہ جماعت بھی شامل تھی جس کے ایک رہنما کو کسی کی فرمائش پر جتوایا گیا حالانکہ عثمان ڈار جیت چکا تھا، ساتھ والے حلقے میں بھی جیتے ہوئے غلام عباس کو ہروا دیا گیا، مثال کے لئے یہ دو سیٹیں ہی کافی ہیں، ویسے تو دیگ میں سے ایک چاول ہی چکھنا چاہئے ۔2002ءمیں بننے والی اسمبلی میں حامد ناصر چٹھہ، چوہدری شہباز حسین اور عمران خان اکٹھے بیٹھتے تھے مگر 2018ء میں ایسا نہیں تھا، 2018ء میں حامد ناصر چٹھہ کے صاحبزادے احمد چٹھہ اور چوہدری شہباز حسین کے بھانجے فواد چوہدری نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا، جہلم سے فواد چوہدری تو جیت گئے مگر وزیر آباد میں احمد چٹھہ کے ساتھ وہی ہوا جو عثمان ڈار کے ساتھ سیالکوٹ میں ہوا۔
2018ء میں پنجاب، خیبرپختونخوا اور وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی، صوبوں میں تو مسئلہ نہ ہوا مگر وفاق میں ہمیشہ مینڈک تولنا پڑے، آپ کو پتہ تو ہے کہ مینڈک تولنا بڑا مشکل کام ہے اس مشکل کام پر عمران خان کو لگا دیا گیا، اگر سینٹرل پنجاب سے پی ٹی آئی کے لوگوں کو نہ ہروایا جاتا تو مینڈک تولنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی مگر کوئی نہ کوئی تو چاہتا تھا کہ حکومت عدم استحکام کا شکار رہے۔ خیر عمران خان نے ساڑھے تین سال حکومت کی، ان ساڑھے تین برسوں میں قریباً تین سال کورونا بھی رہا اور کورونا نے وہ بہت کچھ نہ کرنے دیا جو دنیا کرنا چاہتی تھی۔ کورونا سے جس طرح حکومت پاکستان نمٹی اس کی دنیا نے تعریف کی، ان مشکلات کے باوجود عمران خان کی حکومت زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے میں کامیاب رہی، بند فیکٹریاں کھل گئیں، کسان خوشحالی کے راستے پر گامزن ہوگئے، برآمدات بڑھ گئیں، ہمارا گروتھ ریٹ چھ فیصد پر پہنچ گیا۔ پاور لومز کے لئے دو لاکھ افراد کم پڑگئے، پاکستان کا عالمی سطح پر قد بھی بڑھ رہا تھا تو ایسے میں کوئی نہ کوئی ایسا تھا جس نے منصوبہ بندی کی، آگ اور پانی کو اکٹھا کرکے عمران خان کی حکومت گرا دی، حکومت کی رخصتی کے وقت جذباتی مناظر تھے جیسا کہ عام طور پر رخصتی کے وقت ہوا کرتے ہیں مگر اس مرتبہ حالات ہی کچھ اور تھے ،انداز ہی کچھ اور تھا، پہلے حکومتیں جایا کرتی تھیں تو لوگ مٹھائیاں بانٹتے تھے مگر اس بار لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے ،وہ تو ایک ڈائری اٹھا کے گھر جاکے سو گیا تھا مگر اس بار لوگ نہیں سوئے، ہمارے منصوبہ ساز 1980ءاور 1990ء کی سیاست ذہن میں رکھ کر 2022ءمیں چکر چلانا چاہتے تھے اور ہر کسی کو چکر دینے والے نے یہاں بھی چکر دینا چاہا مگر یہاں چکر الٹ ہو گیا۔
اپریل 2022ءکے ابتدائی ایام میں رجیم چینج کے نام پر مسلط کئے گئے لوگوں نے اپنے کیس معاف کروانے شروع کر دیئے،لوگوں پرمہنگائی اترنا شروع ہو گئی، حکومت کے خاتمے کے دس دن بعد چوہدری شہباز حسین ،عمران خان سے ملے اور یہ موقف اپنایا کہ ’’ہمارے لوگ انفرادی حیثیت میں خطا کر سکتے ہیں، سودا کر سکتے ہیں، ضمیر فروشی کر سکتے ہیں مگر اب تو قوم اجتماعی طور پر جاگی ہے، پوری قوم کا ضمیر جاگ گیا ہے اور جب اجتماعی ضمیر جاگ جائے تو پھر انقلاب دستک دے رہا ہوتا ہے۔ اب آپ کو اس قوم کی قیادت کرنی چاہئے، یہ قوم سوئی نہیں جاگی ہوئی ہے ‘‘اپنی گفتگو میں چوہدری شہباز حسین کئی مرتبہ مائوزے تنگ کی مثالیں دیتے رہے، اس گفتگو کے بعد عمران خان نے پی ٹی آئی کے مرکزی رہنمائوں کو بلایا او رسفر شروع کرنے کا فیصلہ کیا ۔
اس مختصر سے عرصے میں یہ ہوا کہ پاکستانی فوج اور عوام میں فاصلے بڑھے، فوج کی سابقہ قیادت کو خیال نہ آیا مگر موجودہ قیادت کو یہ سوچنا چاہئے کہ پاک فوج اور قوم میں فاصلے ختم ہونے چاہئیں، اس کی نشاندہی درست طور پر سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے کی ہے، شمشاد احمد خان کے ایک حالیہ انٹرویو میں بڑے بڑے انکشافات ہوئے ہیں، ان انکشافات کا بغور جائزہ لیا جائے تو ایک ہی بات کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان میں ہروقت کوئی نہ کوئی اس وطن کو نقصان پہنچانے کی چال چلتا ہے اور عین اسی وقت اس وطن کو بچانے کیلئے کوئی نہ کوئی اپنا کردار ادا کرتا ہے ۔بقول نوشی گیلانی
وقت کے سانپ کھا گئے اس کو
میرے آنگن میں ایک چنبیلی تھی
بشکریہ روز نامہ جنگ