اللہ جانے کون لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہماری قوم ناشکری ہے حالانکہ جتنا شکر ہم لوگ کرتے ہیں شاید ہی کسی اور قوم کے افراد کرتے ہوں، ہم بات بات پر الحمد للہ کہتے ہیں حتیٰ کہ جسے چھینکیں آئیں وہ بھی الحمد للہ کہتا اور جب چھینکیں کسی ’’فنی خرابی‘‘ کی بنیاد پر بند ہونے لگتی ہیں تو اس کے پاس بیٹھا ہوا شخص اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے۔ ہمارے ہاں جب کسی کا بجلی کا بل ٹھیک آتا ہے تو وہ اطمینان کے گہرے سانس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا نظر آتا ہے۔ بچہ اسکول سے بخیریت واپس آ جائے، نمازی مسجد سے صحیح سالم گھر لوٹ آئے، بازار سے خالص دوا مل جائے، کچہری سے انصاف حاصل ہو جائے، تھانے میں داد رسی کے لئے جائیں اور وہاں چھترول نہ ہو تو ان سب مواقع پر ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔
صرف یہی نہیں ہمارے ہاں تو اللہ تعالیٰ کا شکر اس وقت بھی ادا کیا جاتا ہے جب فوج آتی ہے اور اس وقت بھی جب فوج جاتی ہے، ہمارے ہاں تو ایسے سعادت مند فرزند بھی موجود ہیں جو پھولے ہوئے سانس کے ساتھ اطلاع دیتے ہیں کہ پچھلے چوک میں والد صاحب کو جوتے پڑ رہے ہیں خدا کا شکر ہے میں وہاں سے اپنی عزت بچا کر بھاگ آنے میں کامیاب ہوگیا ہوں۔ہم وہ شکر گزار محب وطن پاکستانی ہیں جو امریکی پاسپورٹ ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ ہم ہیروئن کے کامیاب پھیرے پر شکرانے کی نیاز بانٹنے والے لوگ ہیں۔ چنانچہ اللہ جانے وہ کون لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہم ایک ناشکری قوم ہیں۔
ہم تو ایسے صابر شاکر لوگ ہیں کہ گزشتہ 75 برس میں جو حکمراں آیا ہم نے اس کے سامنے سرتسلیم خم کردیا۔ ہم اپنے حکمرانوں کو پسند کرنے کے لئے ان میں خوبیاں خود تلاش کرتے ہیں۔ ہمیں ایک حکمران اپنے قد کاٹھ اور اپنی خوبصورتی کی وجہ سے پسند تھا۔ ایک دو حکمرانوں کی انگریزی ہمیں پسند آئی۔ ایک حکمراں کو پسند کرنے کی وجہ ہم نے بتائی کہ وہ اسلام کا نعرہ بہت زور شور سے بلند کرتا ہے۔ ایک اور حکمراں کے سیکولرازم کو بنیادبنا کر ہم نے اس پر قبولیت کی مہر لگائی۔ ہماری تو روز مرہ کی گفتگو بھی کچھ اس نوعیت کی ہوتی ہے۔
کیا حال ہے؟
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے۔
سنا ہے آپ کے ایک عزیز ٹریفک کے حادثے میں ہلاک ہوگئے ہیں۔
جی ہاں انہیں شدید چوٹیں آئی تھیں ڈاکٹر کوشش کے باوجود ان کی جان نہیں بچا سکے مگر اللہ تعالیٰ کا شکر ہے ان کی آنکھیں بچ گئیں۔
مہنگائی اور لاقانونیت نے ہمارے لوگوں کا ناک میں دم کیا ہوا ہے ،ایک وقت تھا کہ ہماری قوم اس پر جذباتی ہو جایا کرتی تھی، اس کے علاوہ انڈیا کے ساتھ تجارت، آزادیٔ کشمیر اور ایٹمی پروگرام وغیرہ کے حوالے سے بھی ہماری قوم کے بیشتر افراد بے صبری کا مظاہرہ کر جاتے تھے مگر الحمد للہ اب انہیں ان معاملات میں بھی قرار آگیا ہے۔ وہ بین الاقوامی نزاکتوں اور حکمرانوں کی مجبوریوں کو بخوبی سمجھنے لگے ہیں اور یوں ہر طرح کے دیگر معاملات کی طرح اب ان معاملات پر بھی لوگ صبر شکر کرنا سیکھ گئےہیں۔ اب تو شاعروں کے کلام میں بھی محبوب سے گلے شکوے نظر نہیں آتے وہ اپنا لہجہ بدل کر صرف اتنا کہتے ہیں؎
کچھ اس ادا سے آپ نے پوچھا میرا مزاج
کہنا پڑا کہ شکر ہے پروردگار کا
باقیوں کو چھوڑیں میرا اپنا معاملہ بھی یہی ہے ایک ماہ قبل ایک دوست کی بیٹی کی شادی کے موقع پر ایک حاکم نے مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے پوچھا تھا قاسمی صاحب مزاج کیسے ہیں، اس وقت سے میں مسلسل شکرِ پروردگار کا کہتا جا رہا ہوں، ایک ماہ سے میں نے اپنا وہ ہاتھ نہیں دھویا بس روزانہ اس پر پرفیوم چھڑک لیتا ہوں۔
اور اب آخر میں عباس تابش کی ایک خوبصورت غزل:
خوبانِ شہر میں ترا چرچا نہیں رہا
جیسا تُو پہلے ہوتا تھا ویسا نہیں رہا
تم تو بچھڑ کے اور بھی نزدیک آگئے
میرے لئے تو صدمہ بھی صدمہ نہیں رہا
اللہ کرے کہ لیلیٰ کو اس کی خبر نہ ہو
میں نے سنا ہے قیس اکیلا نہیں رہا
افسوس ہو رہا ہے تری شکل دیکھ کر
کیا تُجھ کو کوئی چاہنے والا نہیں رہا؟
یہ گرد بیٹھ جائے تو معلوم کرسکوں
آنکھیں نہیں رہیں کہ تماشہ نہیں رہا
میں نے حساب کرنے کی عادت ہی چھوڑ دی
اب میری زندگی میں خسارہ نہیں رہا
میدان میں رکھی ہوئی میت سے معذرت
صف بندیِ ہجوم کا موقع نہیں رہا
دونوں طرف کے جھانکنے والوں کی خیر ہو
دیوار رہ گئی ہے دریچہ نہیں رہا
لگتا تھا اپنے شہر کو چھوڑے رکھے گا عشق
اب لگ رہا ہے کوئی کسی کا نہیں رہا
یہ ہیں ادھورے پن کی اذیت کے سلسلے
تالاب رہ گیا ہے پرندہ نہیں رہا
لیکن یہ کون اب مرے احباب سے کہے
یکجا نہیں رہے تو میں یکجا نہیں رہا
حیران ہوں کہ جس کو سمجھتا ہوں زندگی
وہ کہہ رہا ہے میرا زمانہ نہیں رہا
اب جو کھُلی ہے آنکھ تو کیا دیکھتا ہوں میں
باہر گلی میں شور شرابہ نہیں رہا
آئی تھی ایک غیب سے آوازِ تخلیہ
پھر اس کے بعد کیا کہیں کیا کیا نہیں رہا
کتنی بڑی مثال ہے قحط الرجال کی
دنیا سمجھتی ہے کوئی مجھ سا نہیں رہا
اک دوسرے سے جیسے ہوں قبریں جُڑی ہوئی
لگتا ہے شہر میں کوئی تنہا نہیں رہا
اُٹھئے کہ اب تو راہ بھی رنگین ہوگئی
چلئے کہ اب تو پائوں میں کانٹا نہیں رہا
بشکریہ روزنامہ جنگ