گزشتہ ماہ وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف کی زیر صدارت پاکستان ریلویز سے متعلق امور پر دو دفعہ اجلاس منعقد ہوا جس میں وزیر اعظم کو ریلوے میں ہونے والی اصلاحات اور مستقبل کے منصوبوں پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔جس پر وزیر اعظم پاکستان نے پاکستان ریلوے میں جاری اصلاحات اور نئے منصوبوں کی رفتار پر وفاقی وزیر ریلوے محمد حنیف عباسی کی ستائش کی۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ریلوے نظام کسی بھی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ملکی معیشت اور صنعتی ترقی کے لئے ملک بھر کے ریلوے انفراسٹرکچر کی پائیدار بنیادوں پر تعمیر نو کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے علاؤہ انہوں نے کہاکہ علاقائی تجارت و روابط کے لئے ریلوے کو جدید بنیادوں پر ترقی دینا حکومتی قومی پالیسی کا اہم جز ہے۔انٹرنیشنل سطح پر کنیکٹوٹی کے منصوبوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی روابط بڑھانے کے لئے ریلوے کو اپنے نیٹ ورک کو وسیع کرنے کے حوالے سے واضح اور جامع حکمت عملی مرتب کرنا ہو گی اور گوادر کو پاکستان ریلویز نیٹ ورک سے منسلک کرنے کا کام تیز تر کرنے کی ہدایت بھی کی۔

علاؤہ ازیں دوسرے اہم اجلاس میں پاکستان ریلویز کی اپ گریڈیشن اور ریکوڈک تک توسیع سمیت مستقبل میں کارگو اور نقل و حمل کی ضروریات کے پیش نظر پاکستان ریلویز کی ترقی بشمول ML-1 اور ML-3 کی اپ گریڈیشن پر بریفنگ ہوئی۔ جس میں وزیراعظم نے2028 تک ریکوڈک کو ریلوے لائن نیٹ ورک سے منسلک کرنے اور ریلوے کی اپ گریڈیشن و ترقی کے لیے فائنانسنگ کے حوالے سے بین الوزارتی کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت کی اور کہا کہ کمیٹی پاکستان ریلویز کی ترقی اور اس کی ریکوڈک تک توسیع کے لیے درکار فائنانسنگ کے حوالے سے ٹھوس تجاویز پیش کرے گی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ریکوڈک کو ریلوے نیٹ ورک سے منسلک کرنے سے بلوچستان کے مائنز اینڈ منرلز شعبے کی ترقی ہو گی اور علاقے کے عوام کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ وزیراعظم کا اپنے وزراء اور ان کے اداروں کی کارکردگی کے حوالے سے با خبر رہنا اور ان کے اداروں میں مزید ترقی کے پہلوؤں پر نظر رکھنا یقینا یہ بہت ہی خوش آئند بات ہے۔ اس سے نہ صرف وزراء کی کارکردگی سامنے آتی ہے بلکہ ان میں مزید شدت سے اداروں میں کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

انٹرنیشنل سطح پر کنیکٹوٹی کے منصوبوں پر تیزی سے پیش رفت جاری ہے اور اس سلسلے میں وزیر ریلوے محمد حنیف عباسی اور پاکستان میں تعینات ازبکستان کے سفیر علی شیر تختائف کے درمیان ایک اہم ملاقات ہوئی، جس میں ازبکستان۔افغانستان۔پاکستان ریلوے ٹرانزٹ راہ داری کے منصوبے پر بات چیت ہوئی۔ اس ملاقات کا مقصد خطے میں شعبہ ریلوے میں تعاون کو مزید فروغ دینا اور اس تاریخی منصوبے کی تکمیل کے لیے مشترکہ حکمت عملی وضع کرنا تھا۔ دونوں رہنماؤں نے اس منصوبے کو خطے کی اقتصادی ترقی اور تجارتی روابط کو مستحکم کرنے کے لیے سنگ میل قرار دیا۔ تقریباً 850 کلومیٹر طویل ریلوے کنیکٹیویٹی کے اس منصوبے پر تعاون کو حتمی شکل دینے کے لیے اتفاق رائے پایا گیا، جس میں افغانستان میں 647 کلومیٹر طویل نئی ریلوے لائن تعمیر کی جائے گی۔ وزیر ریلوے نے کہاکہ منصوبے کی تکمیل کے بعد پاکستان کو وسطی ایشیا تک سب سے مختصر اور موثر ترین راستہ میسر ہوگا، جو نہ صرف تجارتی حجم میں اضافہ کرے گا بلکہ خطے کی معیشت کو بھی مضبوط بنیادوں پر استوار کرے گا۔ اس راہ داری کے تحت سالانہ 15 ملین ٹن سامان کی ترسیل کی صلاحیت متوقع ہے، جو خطے میں برآمدات اور درآمدات کے حجم کو بے مثال حد تک بڑھانے میں مددگار ثابت ہوگی۔

وزیر ریلوے نے کہا تھا کہ مسافروں کو ریلوے اسٹیشنوں اور ٹرینوں میں صفائی ستھرائی کے حوالے سے نمایاں فرق نظر آئے گا۔اور اس عزم کا بھی اظہار کیا تھا کہ ریلوے اسٹیشنز کو جدید اور سہولت بخش مراکز میں تبدیل کر کے مسافروں ایک اچھا اور خوبصورت ماحول فراہم کریں گے۔ ریلوے کو عالمی معیار کے مطابق سہولیات مہیا کرنے کے لیے جامع اصلاحات کی جائیں گی۔جن کو عملی جامعہ کے لیے تیزی سے کام جاری ہے۔آہستہ آہستہ پنجاب کے تمام بڑے ریلوے اسٹیشنوں کو ویسٹ مینجمنٹ کمپنیوں کے حوالے کیا جائے گا۔ پورے ملک میں ویسٹ مینجمنٹ کمپنیوں سے جی ٹو جی معاہدے کیے جارہے ہیں۔ جس سے نہ صرف ریلوے اسٹیشن بلکہ اس سے ملحقہ تمام جگہوں کو بھی صاف ستھرا رکھا جائے گا۔جس کا آغاز پنجاب سے شروع ہو چکا ہے۔ راولپنڈی، چکلالہ، لاہور کینٹ، لاہور، ملتان کینٹ۔خانیوال اور دیگر ریلوے اسٹیشنوں پر صفائی ستھرائی کا نظام ویسٹ مینجمنٹ کمپنیوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ بہت جلد رائے ونڈاور اوکاڑہ ریلوے استیشنزکی صفائی کا انتطام بھی ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے حوالے کر دیا جائے گا۔ ویسٹ مینجمنٹ کمپنیوں کا عملہ اب 24 گھنٹے ریلوے اسٹیشنز،ریلوے یارڈز سمیت جنیٹوریل اور ہاؤس کیپنگ ان ڈور سروسز فراہم کرے گا۔مسافروں کی سہولت کے لیے جدید طرز کے انفارمیشن ڈیسک بڑے اسٹیشنز پر قائم کئے گئے ہیں۔ آہستہ آہستہ تمام اسٹیشنوں پر ٹک شاپس اور کھانے پینے کے سٹالز کو بھی اپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔ریلوے اسٹیشنوں پر کھانے پینے کے سٹالز پرریلوے میڈیکل ٹیم کے علاوہ اب صوبائی فوڈز اتھارٹی کا عملہ بھی غیر معیاری اشیاء فروخت کرنے پرجرمانے کر سکے گا۔اس کے علاوہ لاہور، راولپنڈی اور ٹیکسلا ریلوے اسٹیشنز کو پنجاب کے محکمہ سیاحت نے انٹرنیشنل معیار کے مطابق اپ گریڈ کرنے کے لیے منصوبہ بنایا جس پر کا شروع ہو چکا ہے۔لاہور ریلوے اسٹیشن پر مسافروں کی سہولت کے لیے ایسکلیٹرز (برقی سیڑھیاں) نصب کر دی گئی ہیں تاکہ مسافروں کو ایک پلیٹ فارم سے دوسرے پلیٹ فارم پر جانے میں آسانی ہو سکے۔

پاکستان ریلوے نے تاجر برادری کی سہولت اور ملک میں فریٹ ٹرانسپورٹ نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے مزید 30+30 نئی ہائی اسپیڈ، ہائی کیپیسٹی فریٹ فلیٹ ویگنوں کو اپنے نظام کا حصہ بنایا ہے۔ یہ ویگنیں تاجر برادری کے مطالبے پر تیار کی گئی ہیں اور عالمی معیار کے مطابق ہیں۔ ہر ویگن 60 سے 70 ٹن وزن اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہے، جوریلوے کے فریٹ آپریشنز میں انقلابی پیش رفت ہے۔ ریلوے کا ہدف مجموعی طور پر 820 فریٹ ویگنوں کی شمولیت ہے، جن میں سے 525 ویگنیں پہلے ہی نظام کا حصہ بن چکی ہیں، جبکہ بقیہ ویگنیں رواں سال 31 دسمبر تک شامل کر لی جائیں گی۔نئی ویگنیں مکمل طور پر پاکستان میں تیار کی گئی ہیں، جو مقامی صنعت کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہے۔ ریلوے میں جلد جدید فریٹ ٹرینیں متعارف کروائی جائیں گی تاکہ ملک میں کارگو ٹرانسپورٹ کا نظام مزید مستحکم اور مؤثر ہو سکے۔ کیرج فیکٹری اسلام اباد میں بھی نئی جدید ہائی اسپیڈ کوچز تیار کی جا رہی ہیں یہ کوچز مسافروں کے لیے آرام دہ، جدید ٹیکنالوجی، سیفٹی سٹینڈرڈ اور جدید سہولیات سے مزین ہیں۔ کیرج فیکٹری میں تیار کی گئی نئی کوچز کو پاک بزنس ایکسپریس ٹرین کے ساتھ لگایا جا ئے گا جس کا افتتاح 19 جولائی کو وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف لاہور ریلوے اسٹیشن سے کریں گے .

پاکستان سے روس تک کارگو ٹرین منصوبہ یقینا اس خطے کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یہ منصوبہ پاکستان کو ایران۔ترکمانستان۔ازبکستان۔قازقستان سے ہوتا ہوا روس کے ساتھ جوڑے گااور یہ منصوبہ پاکستان ریلوے کے لئے گیم چینجر اقدام ثابت ہو سکے گاجو نہ صرف پاکستان بلکہ پورے وسطی و جنوبی ایشیا کی معیشت، تجارت اور جغرافیائی روابط کو نئی جہت دے سکتا ہے. پاکستان سے روس تک بھجوائی جانے والی چیزوں میں چمڑے سے تیار کردہ اشیاء، الیکٹرو میڈیکل ڈیوائسز، ٹیکسٹائل مصنوعات چاول, جراہی کے آلات اور کپڑے وغیرہ جبکہ روس سے پاکستان کے لیے تیل،قدرتی گیس، سٹیل، صنعتی سامان، کھاد،گندم اور پٹرولیم وغیرہ درامد کی جا سکتی ہیں۔ پاکستان سے روس کے لیے پہلی مال بردار ٹرین سروس چلانے کے لئے تیاریاں مکمل تھیں اور 22 جون 2025 کو یہ ٹرین لاہور سے روانہ ہونی تھی لیکن ایران اسرائیل جنگ کی وجہ سے بارڈرز پر کشیدگی کی وجہ سے یہ ٹرین روانہ نہ ہو سکی لیکن امید ہے جیسے حالات بہتر ہوتے ہیں ٹرین روس کے لیے روانہ کر دی جائے گی۔

ریلوے نے مسافروں کے لئے مزید سہولیات میں اضافہ کرتے ہوئے پاکستان ریلویز اور الائیڈ بینک لمیٹڈ کے درمیان ملک بھر کے 348 ریلوے اسٹیشنوں پر جدید پوائنٹ آف سیل سسٹم متعارف کرانے کے لیے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کئے جا چکے ہیں۔ معاہدے کے تحت پوائنٹ آف سیل سسٹم ٹکٹنگ کو جدید بنائے گا۔ادائیگی کے عمل کو ہموار کرے گا اور آٹومیشن کے ذریعے پاکستان ریلوے کی مالیاتی شفافیت میں اضافہ کرے گا۔ معاہدے کے موقع پر وزیر ریلوے کا کہنا تھا کہ یہ اقدام وزیر اعظم کے ”ڈیجیٹل پاکستان” کے وژن کا حصہ ہے اور یہ پاکستان ریلوے کی مکمل ڈیجیٹل تبدیلی کو یقینی بنائے گا اور یہ منصوبہ ساٹھ دنوں میں مکمل ہو جائے گا۔جس سے مسافر اب کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈز کے ذریعے ٹکٹس اور ریلوے کی دیگر خدمات حاصل کر سکیں گے۔اس اقدام سے پاکستان ریلوے کو اپنی آمدنی بڑھانے، مالی فراڈ، چوری اور اکاؤنٹنگ کی غلطیوں کو کم کرنے میں بھی خاطرخواہ مدد مل سکے گی۔ڈیجیٹائزیشن کے ضمن میں، آئی ٹی ڈائریکٹوریٹ کی ری اسٹرکچرنگ جاری ہے، پنجاب آئی ٹی بورڈ کے ساتھ معاہدے کے تحت نیا مربوط نظام، 117 ہیلپ لائن، ای آفس، آن لائن بکنگ اور شکایات کے نظام کو اپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔ پنجاب حکومت کی معاونت سے 40 ریلوے اسٹیشنز پر مفت وائی فائی کی سہولت مہیا کی جائے گی۔

پاکستان ریلویز نے مالی سال 25-2024 کے اختتام پر تاریخ ساز آمدن 93 ارب روپے حاصل کر لئے جبکہ مالی سال 24-2023 میں پاکستان ریلویز نے 88 ارب روپے کمائے تھے۔اس لحاظ سے مالی سال 25-2024 میں 5 ارب روپے زیادہ کمانے۔ریلوے کو جن ذرائع سے آمدن حاصل ہوئی ان کی تفصیل کچھ یوں رہی۔مسافر ٹرینوں سے ساڑھے47 ارب جبکہ مال گاڑیوں سے ساڑھے 31 ارب روپے حاصل ہوئے۔ملٹری ٹریفک سے ڈیڑھ ارب جبکہ دیگر کوچنگ ذرائع سے 3 ارب آمدن ہوئی اورمتفرق ذرائع سے ساڑھے 9 ارب روپے حاصل ہوئے۔ ریلوے کی ریکارڈ آمدن حاصل کرنے پر وزیر ریلوے کا کہنا تھا کہ محدود وسائل کے ساتھ شاندار کارکردگی پر ریلوے انتظامیہ تعریف کی مستحق ہے اور میں اپنے مزدوروں کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے ادارے کے استحکام کیلیے خون پسینہ بہایا۔ ہم پاکستان ریلوے کو مضبوطی کے ساتھ کھڑا کریں گے اور ترقی کے اس سفر کو جاری رکھیں گے.

وزیر ریلوے پر امید ہیں کہ ریلوے میں بہتری کے لئے انقلابی تبدیلیاں شروع چکی ہیں۔وہ یہ کہہ چکے ہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی قیادت میں 350 ارب روپے کے منصوبے شروع کیے جا چکے ہیں، جن میں لاہور تا راولپنڈی فاسٹ ٹرین شامل ہے جس کے لیے پنجاب حکومت نے 250 ارب روپے مختص کیے ہیں، جس سے سفر کا دورانیہ دو گھنٹے رہ جائے گا۔سب اربن ریلوے سروس کے لیے پنجاب کے 8 ٹریکس پر کام جاری ہے، شاہدرہ سے کوٹ لکھپت تک گرین بیلٹ کے لیے فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ تعاون کر رہا ہے۔ پنجاب میں 436 بغیر گیٹ کراسنگز میں سے 150 پر کام شروع ہو چکا ہے جس کے لیے 9 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ بلوچستان حکومت نے بھی ریلوے منصوبوں میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے رواں مالی سال کے لیے 3 ارب روپے مختص کیے ہیں اور مزید 10 ارب روپے سرمایہ کاری کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ جلد سندھ حکومت سے بھی بات چیت کی جائے گی۔پاکستان ریلوے یقینا ایک قومی ادارہ جس کی ترقی میں جو بھی حصہ ڈالے گا وہ ملک کے ساتھ نیکی کرے گا اور اس نیکی کا فائدہ براہ راست تاجر برادری اورریلوے کے ذریعے سفر کرنے والے مسافروں کو ہو گا۔