یہ ایک ایسا نظام ہے جہاں انصاف اور امید محض سراب ہیں۔ ایک ایسا سراب جس کے پیچھے دوڑتے رہنے کے باوجود مایوسی اور کرب ہی نصیب ہوتے ہیں۔ جہاں بار بار اسی انصاف کے دروازے کو کھٹکھٹانا پڑتا ہے جس کے پیچھے صدیوں کی نامیدی و ناانصافیوں کی کہانی ہے، ایک ایسی خاموشی جو مظلوموں کے نالوں اور سسکیوں کو بھی نگل جاتی ہے۔

اس جہدوجہد میں ہر بار بکھر جانا، پھر ٹوٹے ہوئے وجود کو سنبھالنا، زخموں کو سہلانا، خود کو سمیٹ کر دوبارہ کھڑا کرنا، اور پھر ایک نئی امید کے ساتھ جینا… لیکن آخرکار یہ کڑوی حقیقت قبول کرنا پڑتی ہے کہ کوئی آپ کی صدا نہیں سنے گا۔ یہ اذیت شاید دنیا کا سب سے بڑا کرب ہے، وہ کرب جو جسم کو نہیں، روح کو چھلنی کرتا ہے۔

مایوسی کو تصویروں میں قید کرنا، مایوسی کے کرب کو فائلوں اور الماریوں میں دفن کر دینا، اور خود کو بار بار یہ جھوٹی تسلی دینا کہ انصاف اس سرزمین پر مظلوموں کے لئے نہیں۔ پھر ہر بار خالی ہاتھ لوٹنے کی اذیت کو اپنے دل میں جگہ دینا، یہ دکھ اپنی نوعیت میں اتنا شدید ہے کہ اسے بیان کرنے کے لئے الفاظ ہمیشہ کم پڑ جاتے ہیں۔

مگر اس سب کے باوجود، وہ زخم جو پیاروں کی گمشدگی نے ہمارے دلوں پر لگائے ہیں، وہ دکھ اتنا وسیع اور اتنا گہرا ہے کہ اس کے سامنے باقی تمام دکھ چھوٹے، معمولی اور بے معنی محسوس ہوتے ہیں۔ یہ ایسا غم ہے جو ہمارے وجود کے ہر گوشے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، جو ہمارے خوابوں کو اجاڑ دیتا ہے، ہماری ہنسی چھین لیتا ہے، اور ہمیں ایک نہ ختم ہونے والے جدوجہد اور اذیت میں دھکیل دیتا ہے۔
یہی غم ہمیں مایوسی کے اندھیروں میں ڈوبنے نہیں دیتا۔ یہی دکھ ہمیں سونے نہیں دیتا، ہمیں بھلا دینے نہیں دیتا۔ یہی کرب ہماری مزاحمت کی بنیاد بنتا ہے۔ یہ دکھ ہمیں ہر دن یاد دلاتا ہے کہ جب تک ہمارے پیارے واپس نہیں آتے، جب تک جبری گمشدگیوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا، جب تک ظلم کی دیواریں نہیں گرتیں۔ ہماری جدوجہد سڑکوں پر جاری رہے گی۔

یہ مزاحمت صرف ایک احتجاج نہیں، یہ ہمارے زخموں کی زبان ہے۔ یہ ان ماؤں کی چیخ ہے جن کے بچے چھین لئے گئے، یہ ان بہنوں کی سسکی ہے جو برسوں انتظار میں ہیں، یہ ان بچوں کی معصوم آنکھوں کی پکار ہے جو اپنے والد کے لمس کو ترس گئے۔ اور جب تک یہ زخم زندہ ہیں، یہ مزاحمت بھی زندہ رہے گی۔

مھکم باتے ✌️
نوٹ: یہ تحریر بلوچتسان سے تعلق رکھنے والی سمی دین بلوچ کے ٹویٹر سے کاپی کی گئی ہے،،سمی دین بلوچ کے والد ڈاکٹردین محمد بلوچ کئی سال سے جبری طورپرلاپتہ کئے گئے ہیں…