شہراقتدارکے سیاسی جمہوری پارلیمانی حلقوں میں وزیراعلی مریم نوازشریف کی جانب سے پارٹی میں ن۔ش۔م۔کے متحد اور ایک صفحے پر ہونے کا تازہ بیان زیربحث آگیا۔

ناقدین نے اس بڑی انٹری پر تبصرہ کیا ہے کہ پارٹی میں،، م ،،کا تذکرہ پارٹی قیادت کی دبی دبی خواہش کا اظہار ہوسکتا، جانشینی کی اطلاع دینا بھی مقصودہوسکتاہے ،تاہم تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پارٹی میں سب سے زیادہ جو متحرک وہی وارث،فعال تو خاتون وزیراعلی ہی ہیں،دیگر نوشتہ دیوارپڑھ لیں،پارٹی کے بڑے بھی زہن بناچکے ہیں۔اس بیان پرپارلیمینٹ ہاوس کی غلام گردشوں میں دن بھر اس پر تبصرے ہوتے رہے زیادہ مریم کے حامی دکھائی دیئے،ایک وفادارکو یہاں تک کہتے سنا لکھ لیں پاکستان کو دوسری خاتون وزیراعظم میسر آسکتی ہے ،تاہم اس کے قریب بیٹھے اس کے دوست اس سے متفق نظر نہ آئے۔

قارئین اس سب کچھ کو بیان کرنا کا مقصد ہے پاکستان میں وراثتی خاندانی سیاسی نظام پوری شان وشوکت طاقت سے رائج ہے۔ ایک دو کے علاوہ چھوٹی اور قوم پرست جماعتوں میں بھی یہ سرایت کرتا جارہا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ مریم نوازشریف نے خواہش کے اظہار کے لئے مخالفین کی طعنہ زنی کاسہارا لیا ہے کہ کہا جارہا ہے کہ ن سے ش نکل آئی اب م کی بات کی جارہی ہے یہ کچھ بھی کہیں کان کھول کر سن لو پاکستان مسلم لیگ میں ن۔ش۔م ۔سب متحد یکجا ہیں ۔

تجزیہ نگارسوالات اٹھا رہے کہ اس موقع پر جب کہ حکومتی اتحادی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے تعلقات کاردراڑ کے آثار ہیں عین اس وقت ایسا بیان کیوں سامنے آیا۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے پاکستان مسلم لیگ(ن) میں کارکنوں کی سیاسی نبض پر مریم نوازکے ہاتھوں کی گرم جوشی محسوس کی جارہی ہے اور پیپلزپارٹی کو آڑے ہاتھوں لینے پر پارٹی کارکنان وزیراعلی پنجاب سے خوش دکھائی دیتے ہیں انھیں اس کردار میں قائدانہ بیانات جھلک نظر آرہی ہے۔وہ اپنا مستقبل پارٹی قائدکی صاحبزادی میں تلاش کررہے ہیں کیونکہ دیگر قائدین سے وہ خودکودورمحسوس کرتے ہیں دیکھیں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے جلد صورتحال واضح ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے اس لئے بھی کڑیاں ملائی جارہی ہیں کہ پیپلزپارٹی میں میں اپوزیشن بینچوں پر جانے کی بازگشت ہے پارٹی کارکنوں نے سوشل میڈیا پر برملااس کا اظہار بھی شروع کردیا ہے۔ مریم نوازشریف کو ان ہی معاملات کی وجہ سے اپنی جماعت میں پذیرائی مل رہی ہے کہ وہی بھرپورجواب دینے کا فن جانتی ہیں اور دور دور تک اس کی گونج سنائی دیتی ہے۔