شہراقتدارمیں پاکستان کے ایک صوبائی دارالحکومت میں آئینی حکمرانی عوامی بالادستی ایک سیاسی جماعت کے قائد کے اٹل فیصلہ پر مکمل عملدرآمد ہونے کے مناظر پر خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے اور اسے سیاست جمہوریت کے لئے خوش آئندبھی قراردیا جارہا ہے۔
تجزیہ نگاروں نے یہ بھی مسلم لیگ(ن)،پیپلزپارٹی ،جے یوآئی، اے این پی گورنر کو، یاد، دلوادیا ہے کہ ملک میں صدر وزارءا اعظم کے استعفوں کی کبھی تصدیق نہ ہوئی ۔وزیراعلی کے لئے شرط کیوں عائد کی گئی۔ حزیمت اٹھانا پڑی ہے۔اپوزیشن جماعتیں سیاسی نقصان کر بیٹھیں ،سیاسی حالات کی نبض کے درجہ حرارت کا اندازہ نہ کرسکیں،شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے کی کوشش گلے پڑ گئی ۔ثابت ہوگیا کہ علی اعلان استعفے منظور شدہ تصور کیا جاتا ہے ۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نئے اڑان عوامی بالادستی کی عکاسی ہے بلاول بھٹو نے بھی اپنے گورنر کوہدایت دینے میں تاخیر کردی تھی رضاربانی ہی سے مشورہ کرلیتے۔تفصیلات کے مطابق شہراقتداراسلام آباد کے سیاسی جمہوری حلقوں میں نئے وزیراعلی خیبرپختونخوا سہیل آفریدی کے حلف پر جہاں اظہار اطمینان کیا جارہا ہے ،وہیں استعفوں کی پسندناپسندکی بنیادپر تصدیق کے معاملات پر نئی بحث چھڑ گئی ہے ۔ ماضی میں صدر پرویزمشرف وزراءاعظم میر ظفراللہ جمالی ،چوہدری شجاعت حسین کے استعفوں کی تصدیق کا کسی کوخیال نہ آیا سب زبانیں گُنگ تھیں پراسرارخاموشی تھی مگر علی امین گنڈاپورکے علی اعلان رضاکارانہ وزارت اعلی سے استعفے پرشورمچ گیا یعنی مخصوص حلقوں کی مرضی منشا دباؤ کے تحت کسی کے استعفے ہوں رو وہ فوری منظور ۔کوئی سیاسی جماعت کا سربراہ تبدیلی کے لئے اپنا اختیار استعمال کرے تو ہنگامہ برپا ہوجائے اور اس کے لئے کندھے بھی سیاسی استعمال ہوں ۔
علی امین گنڈاپور نے بابنگ دہل بانی پی ٹی آئی کی ہدایت پر وزیراعلی کے عہدہ سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا گورنر کو بھیج دیا جیسے کاپی اسپیکر کے پی کے کو ملی نئے قائدایوان کے انتخاب کا شیڈول جاری کردیا گیا اپوزیشن جماعتوں کی بھی دوڑیں لگ گئیں اور کاغذات نامزدگی بھی جمع کروادیئے یعنی اس معاملے میں شروع سے کے پی کے کی اپوزیشن جماعتیں گومگو تذبذب کا شکار نظر آئیں ،ناقدین نے ان جماعتوں کو صدر مشرف کے اسپیکر قومی اسمبلی کو پیش استعفے، وزراءاعظم میرظفراللہ جمالی چوہدری شجاعت حسین کی استعفوں کی تصدیق کے معاملات نہ اٹھنے کی آگاہی دی ہے متحدہ مجلس عمل 2007میں اجتماعی طور پر قومی اسمبلی سے مستعفی ہوئی چندگھنٹوں میں اس وقت کے اسپیکر امیرحسین نے استعفے منظور کرلئے ۔ یعنی استعفوں کے معاملات میں کسی اور کی رضامندی بھی ضروری اب یہ تاثر زائل ہوا ہے .
تجزیہ نگاروں کے مطابق پی ٹی آئی کو استعفے کے حوالے سے اپنے موقف میں سرخروئی ملی ہے حالانکہ اسدقیصر کی قیادت میں وفدنے گورنر فیصل کنڈی سے ملاقات میں تعاون کی درخواست بھی کی تھی ۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جمہوری تجربہ یہ ہواکہ علی اعلان رضاکارانہ استعفوں کی تصدیق کی ضرورت نہیں ہوتی استعفے خودکار نظام کے تحت نافذالعمل ہوجاتے ہیں علی امین گنڈاپورکے استعفے سہیل آفریدی کی آمد سے نئی تاریخ رقم ہوئی یعنی اگر صدر وزراءاعظم کے استعفوں کی تصدیق آئینی تقاضا نہیں تو پھر وزیراعلی کے لئے یہ شرط کیوں، متعلقہ آئینی شق کے تحت استعفے کو آئندہ متعلقہ شخصیت حتمی تصور کرے یہی سبق پوشیدہ۔بلاول نے بھی تاخیر سے مداخلت کی کیونکہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس گورنرکو نئے وزیراعلی سے حلف لینے کا حکم دیتے ہر صورت حلف کا بندوبست کردیا کہ پھر اسپیکر وزیراعلی سے حلف لیں گے ۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق اس معاملے میں آئینی حکمرانی عوامی بالادستی میں پیش رفت کے اشارے ملتے ہیں ۔مسلم لیگ(ن) پیپلزپارٹی بھی اپنے طرزعمل کا جائزہ لیں یہی میثاق جمہوریت کا تقاضا ہے۔18ویں ترمیم کے تحت نئی صوبائی خودمختیاری کی دعویدار جماعتیں سابق چیئرمین سینیٹ رضاربانی سے ہی مشورہ کرلیتی صائب مشورہ مل جاتا، سیاسی ہم آہنگی کا اعزازلیتے ہوئے کے پی کے میں نئی سیاسی جگہ بھی حاصل کرلیتی کسی اورخوشنودی میں نہ صرف سیاسی خسارے میں رہیں بلکہ پی ٹی آئی کی مقبولیت میں اضافہ میں خیبرپختونخواکی اپوزیشن جماعتیں سبب بن گئیں اب ان معاملات میں غلطی کی .


