اسلام آباد(محمداکرم عابد) پاکستانی شہر اقتدار کے پارلیمینٹ ہاؤس میں 27ویں ترمیم کے معاملت پیالی کا طوفان ثابت ہوئے تاہم پارلیمانی راہداریوں غلام گردشوں میں پراسرار خاموشی چھائی ہوئی ہے ان حالات میں قومی اسمبلی میں سابق اسپیکر اسد قیصرنے خواہشات پر آئین میں ترامیم کے لئے ہر وقت کمربستہ حکومتی اتحادیوں پر ،،درباری سیاست ،، کا الزام عائد کردیا اور کہاکہ ذوالفقارعلی بھٹوکا نواسہ اپنے نانا کے بنائے آئین کی بنیاد مسمارکرنے پر تلُا ہواہے۔
انہوں نے کہاکہ جعلی اسمبلی کو آئین میں ترامیم کا اختیار ہی نہیں ہے۔آئین کے ساتھ کھلواڑ والی پیپلزپارٹی ختم ہوجائے گی ۔
پارلیمینٹ ہاوس میں آئینی قانونی ماہرین کی اس رائے کی بازگشت سنائی دی کہ آئین کی بنیاد سے متعلق ترامیم میں احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے ۔پارلیمینٹ کو ٹائم فریم کا پابندبنانا مہلک ثابت ہوسکتا ہے یہ روایت بنتی جائے گی اسپیکر قومی اسمبلی ایازصادق اور پی ٹی آئی میں تعطل ختم ہوگیا ہے ملاقات ہوگئی اور اپوزیشن لیڈر کی تقرری کی یقین دہانی حاصل کرلی گئی ہے بس ایک حکم امتناعی کی واپسی ضروری ہے جو معزول اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کی جانب سے واپس لی جانی ہے۔
اسدقیصر نے ملاقات کے بعد ہنگامی پریس کانفرنس میں کہا کہ بلاول اپنے نانا کے آئین کو ختم کرنا چاہتے ہیں ۔بلاول ڈرامہ بازی چھوڑ دیں عوام کی توہین نہ کریں انھیں بیوقوف نہیں بناسکتے ٹوپی ڈرامہ نہیں چلے گا ان کی مرضی ہے ۔ان کے نانا اور والدہ نے بہادری سے اپنی سیاست کو بچایا ۔ اگربلاول عوام کے خلاف کھڑے ہوگئے تو وہ پیپلزپارٹی کی سیاست کو دفن کردیں گے آئین مقدس دستاویزات ہیں جعلی اسمبلی کو اس میں ترامیم کا اختیار نہیں چیئرمین پیپلزپارٹی نے ٹوئٹ سے ڈرامہ بازی شروع کی سب پہلے سے طے شدہ ہے یہ رٹ لگانا چھوڑ دیں کہ اتنے نکات پر اتفاق نہیں ہے اور ہمارے مطالبات حکومت مان گئی اب ہم دوسرو ں سے بات کریں گے ۔ کس کو دھوکے میں رکھنا چاہتے ہو ۔اس اسمبلی کے پاس اختیار نہیں کہ یہ کوئی قانون سازی کر سکیں ،اس حکومت کے پاس عوام کا مینڈیٹ نہیں ہے ،یہ جو بھی ترمیم یا بل لے کر آئیں گے ہم اس کو مسترد کرتے ہیں ،اس پارلیمنٹ کے پاس کوئی اختیار نہیں یہ کوئی قانون سازی کر سکیں ،پاکستان کے تمام مکتب فکر کے لوگوں سے کہتا ہوں کہ نکلیں ،اس ملک میں جمہوریت ختم ہو گئی ہے ،تمام لوگوں کی زمہ داری بنتی ہے کہ اس نظام کے خلاف نکلیں ،بانی پی ٹی آئی عمران خان اس لیے جیل میں ہے کہ وہ اس نظام کو نہیں مان رہا۔
سابق اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ بلاول تم قوم کا وقت ضائع نہ کرو اپنے نانا کی سیاست سے سیکھو18ترامیم سے سبق ملے گا سب جماعتوں کی مشترکہ کاوش تھی کہیں اور سے کوئی ڈرافٹ نہیں آیا تھا۔ قارئین یہ سب بیان کرنے کا مقصد ہے کہ جب آئین سازی یا غیرمعمولی ترامیم ہمیشہ اتفاق رائے سے ہوئیں بھٹوکی قیادت میں سب جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر متحدہوئی تھی سب نے وفاق اور صوبوں کی مشترکہ سوچ کے تحت قومی میثاق مرتب کیا کہیں سے کوئی مسودہ نہیں آیا تھا ان دنوں پارلیمان میں ان اکابرین کی آئینی خدمات کی یاد تازہ ہورہی ہیں اور بھٹو والوں کو پی ٹی آئی کی طرف سے خصوصی طورسیاسی جماعتوں کی آئینی سازی سے متعلق آزادی وخودمختیاری سے کام کرنے سے آگاہی دی جارہی ہے یہی کارنامہ18ویں ترمیم تیارکرنے والی 13جماعتوں نے انجام دیا اور پہلے پارلیمانی کمیٹی کے قیام پر اتفاق ہوا دونوں ایوانوں میں اس بارے میں متفقہ قراردادمنظور کرتے ہوئے کمیٹی کو مسودے کی تیاری کا مکمل اختیار دیا گیا ۔صوبہ سرحد کو خیبرپختونخوا کے نام سے شناخت ملی کہیں مسودہ نہیں آیا تھا بلکہ پارلیمانی کمیٹی نے خود مسودہ ترمیم کی شروعات کرتے ہوئے100سے زائد ترامیم 1973کے آئین میں کرتے ہوئے وفاقی آکائیوں کے اظہار اطمینان کا کارنامہ انجام دیا کمیٹی کو ٹائم فریم کا پابند بھی نہ بنایا گیا تھا کیونکہ ترامیم کوئی آسان سہل نہیں بلکہ دشوارگزارگھاٹیوں سے گزرنا پڑتا ہے ۔18ویں ترمیم سے پہاڑوں پر جانے والے بھی مطمئن دکھائی دیئے قوم پرست بھی اظہار تشکر سے وفاق کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اب یہ کیوں شور بپا ہے مسودہ کہیں اور تیار ہورہا ہے مسلم لیگ(ن) حکومت کے پاس کوئی تجاویز ہیں تو اسے پارلیمانی کمیٹی میں لے آئیں سب اپنی اپنی تجاویز لانے پر راضی ہوجائیں گے جو طے ہوجائے منظر عام پر لے آئیں۔ مسودہ پارلیمانی کمیٹی میں بنے یہی درمیانی راستہ ہے یہ مشورہ ایک اعلی سیاسی شخصیت نے حکمران جماعت کی قیادت دے دیا ہے اور ضمانت دی کہ یہ راستہ اختیار کرنے پر پی ٹی آئی پارلیمانی ترامیم پرمشاورتی عمل کا حصہ بن جائے گی بس یہ تسلیم کہ مسودہ پارلیمانی کمیٹی کی ہی مشاورت سے تیار کرتے ہوئے اس کی ملکیت تصور کیا جائے گا ۔تاریخ کا سبق یہی ہے صوبائی خودمختیاری میں آگے بڑھنا ہے کسی کی شناخت کے درپے نہ ہوں وسائل عوام کی ملکیت ہے ان کے حقوق کی نگہبان بنیں عوامی بے چینی کا سبب نہ بنیں ۔سیاسی ڈزاسٹر کاسامنا سیاستدانوں کو کرنا پرتا ہے باقی سب تو باہر نوکری کے لئے چلے جاتے ہیں۔وزراءاعظم تخت دار چڑھ جاتے ہیں سڑکوں پر مارے جاتے ہیں جلاوطن ہوتے میثاق جمہوریت میں غیر جمہوری قوتوں سے رابطہ نہ رکھنے کے عہد وپیمان کیئے جاتے مگر سیاسی جماعتیں تاریخ سے سبق نہیں سیکھتی، مفاد عامہ کی بجائے وقتی انفرادی مفادات کے اسیرایسے بن جاتے ہیں کہ خدمات پیش پیش کرنے کے لئے کندھے اونچے اونچے کرکے پکار لگاتے ہیں ۔سینیٹ میں پہل ہوگی بس مہرثبت کرنے کی دیر ہے شاید کوئی خودداری دکھائے دے اور نئی تاریخ رقم ہوجائے ناقدین کا کہنا ہے کہ صوبائی خودمختاری، صوبائی وسائل عدلیہ نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی پر ایسا کلہاڑا چلنا والا ہے کہ سیاہ وسفید کے مالک بننے والے خوش، باقی ۔۔۔۔۔۔ الامان الاحفیظ۔فارم 47کی لٹکتی تلوار بھی نظر آرہی ہے۔شروعات وفاقی اکائیوں کے نمائندہ ایوان بالا سے ہوگی۔سینیٹ میں پارٹی پوزیشن یہ ہے ائینی ترمیم کے لیے اس وقت سینٹ سے دوتہائی اکثریت کے لئے 64 ارکان کے ووٹ درکار ہوں گے۔تین ووٹ کم ہیں ۔ حکومتی بینچز میں پیپلز پارٹی 26 مسلم لیگ نون 20 ، بلوچستان عوامی پارٹی 4 ،ایم کیو ایم کے 3 ،نیشنل پارٹی 1، م لیگ ق ایک .حکومتی بینچز پر آزاد سینیٹرز میں سینٹر عبدالکریم ,سینٹر عبدالقادر , محسن نقوی, انوار الحق کاکڑ ، اسد قاسم اور سینٹر فیصل واڈا ہیں۔اپوزیشن بنچز میں ایک آزاد سینٹر نسیمہ احسان اے این پی کے 3 ، پی ٹی آئی کے 22 ،جمعیت علماءاسلام پاکستان کے 7 سینیٹرز ہیں۔اپوزیشن بنچز پر مجلس وحدت المسلمین کا ایک رکن موجود ہے حکومت 61اپوزیشن32ارکان ہیں


