آئینی اختیار
آئین پاکستان 1973 کے آرٹیکل 249 کے تحت پارلیمان کو اختیار حاصل ہے کہ وہ آئین میں ترامیم کر سکے۔ حال ہی میں منظور ہونے والی ستائیسویں ترمیم صدر مملکت کی منظوری کے بعد 13 نومبر 2025 سے نافذ العمل ہو گئی۔
عدالتی نظام اور فوجی ڈھانچے میں تبدیلیاں
اس ترمیم کے ذریعے بنیادی طور پر عدالتی نظام، فوج کی کمان کی ساخت، اور سرکاری حکام کو استثناء کے حوالے سے اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ نتیجتاً آئین کے تحت طے شدہ اختیارات کی تقسیم اور بنیادی ڈھانچہ، جس کا محور آزاد عدلیہ اور منتخب حکومت کے ماتحت پیشہ ور فوج تھا، عملاً ختم ہو گیا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ مسلح افواج کی بجائے عدلیہ کو انتظامی شاخ کے ماتحت ایک محکمہ بنا دیا گیا ہے۔
وفاقی آئینی عدالت کا قیام
اس ترمیم کے تحت ایک وفاقی آئینی عدالت قائم کی گئی ہے جو پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت ہوگی، جبکہ سپریم کورٹ کو صرف دیوانی اور فوجداری مقدمات کی آخری اپیل کی عدالت کے طور پر محدود کر دیا گیا ہے۔
عدلیہ کی آئینی الجھن
عدلیہ اس وقت آئینی اعتبار سے نہایت پیچیدہ اور نازک مقام پر کھڑی ہے، جو آئینی بالادستی اور قانونی تشریح کے درمیان کئی بنیادی سوالات پیدا کرتی ہے۔ موجودہ آئینی صورتحال میں یہ سوال ابھر کر سامنے آتا ہے:
> قانون میں آئین کو کیسے لکھا جائے، اور آئین میں سے قانون کو کیسے الگ کیا جائے؟
ان دونوں کے درمیان اب ایک غیر مرئی دیوار کھڑی ہو چکی ہے۔ اس صورتحال میں سپریم کورٹ کے جج حضرات کو آئین کے واضح حوالہ کے بغیر فیصلے دینے پڑیں گے، جو عدالتی ڈھانچے کے لیے ایک بنیادی تضاد ہے۔
عدلیہ اور سیاست
یہ حقیقت بھی ہے کہ عدلیہ نے کئی مواقع پر سیاست میں مداخلت کی، ماورائے آئین اقدامات کی توثیق کی، اور منتخب وزرائے اعظم کو برطرف کیا۔ مگر یہ سب عدلیہ کی اپنی "آزادانہ” ترجیحات کے باعث نہیں ہوا، بلکہ سیاسی دباؤ کے تحت عدلیہ ایک سیاسی انجینئرنگ کے آلہ کار کے طور پر کام کرتی رہی۔
مولوی تمیز الدین، دوسو اور ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمات کے فیصلے اس بات کی واضح مثال ہیں۔
عدلیہ کا دوہرا کردار
تاہم، عدلیہ نے بنیادی حقوق کے تحفظ، آمریت پر قدغن لگانے، اور ریاستی زیادتیوں کو روکنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ اس لیے عدلیہ کو مکمل طور پر سیاسی آلہ کار قرار دینا اتنا ہی غیر منصفانہ ہے جتنا اسے ہر وقت مکمل طور پر آزاد اور بہادر قرار دینا۔
ستائیسویں ترمیم کی نوعیت
ستائیسویں ترمیم کسی حقیقی ادارہ جاتی اصلاح پر مبنی نہیں، بلکہ یہ کسی سیاسی بندش یا جمود کا نتیجہ محسوس ہوتی ہے۔ اس میں عدالتی احتساب اور شفافیت کے ذریعے نظم و ضبط قائم کرنے کی بجائے، حکومت نے پارلیمان کے ذریعے پورے عدالتی ڈھانچے کو دوبارہ تشکیل دیا ہے۔
ادارہ جاتی عدم استحکام
عدلیہ کی بار بار تشکیل نو اندرونی اور بیرونی عدم استحکام کی علامت ہے۔ ایسی ترامیم عوام کے اعتماد کو بحال نہیں کر سکتیں، اور شہری نہ انتظامیہ، نہ پارلیمان، اور نہ ہی عدلیہ پر اعتماد کرتے ہیں۔ مسئلہ آئین یا ترامیم کا نہیں، بلکہ پارلیمان کی اصلاحی کارکردگی کے فقدان کا ہے۔
نتیجہ
مختصر یہ کہ ستائیسویں ترمیم ایک علامتی علاج ہے، جبکہ اصل بیماری وہی ہے: ادارہ جاتی دیانت اور کارکردگی کا فقدان۔
جب تک اس بنیادی مرض کا علاج نہیں ہوگا، کوئی ترمیم پاکستان کے آئینی اور معاشی زوال کو نہیں روک سکتی۔


